محاذ آرائی کے بجا ئے آئینی مذاکرات

محاذ آرائی کے بجا ئے آئینی مذاکرات

ملک میں سیاسی درجہ حرارت کا مسلسل بڑھتے چلے جانا ہر باشعور پاکستانی کیلئے انتہائی فکرمندی کا باعث ہے۔ تحریک انصاف کا لانگ مارچ شروع ہوچکا ہے جو اگرچہ احتجاج کے آئینی حق کی رو سے قابل اعتراض نہیں لیکن اس کیلئے اس کا پرامن رہنا ضروری ہے جبکہ پچھلے چند روز میں ایسے واضح شواہد سامنے آئے ہیں جن کے بعد اس مشق میں خون خرابے کے خدشات بہت نمایاں ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے والے سیاسی رہنما فیصل واوڈا نے مارچ کے آغاز سے عین پیشتر پریس کانفرنس کرکے قوم کو متنبہ کیا کہ یہ سرگرمی پر امن نہیں ہوگی اور اس کے نتیجے میں وہ خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں دیکھ رہے ہیں جبکہ گزشتہ روز ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ کے شرکاء کی ایک بڑی تعداد کو بندوقوں سے لیس کرنے کا اہتمام اور انسداد لاقانونیت کی کارروائی کی صورت میں ان بندوقوں کو استعمال کرنے کے ارادے کا عَلانیہ اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی ہوا ہے جو یقینا خوش آئند بات ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور میں بلاگرز سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے ایک ماہ پہلے مشترکہ کاروباری دوست کے توسط سے مذاکرات کی پیشکش کی، وہ آرمی چیف کی تقرری اور انتخابات سے متعلق بات چیت کرنا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ تین نام میں بھجواتا ہوں تین آپ دیں مل کر آرمی چیف لگا لیتے ہیں،میں نے انکار کیا تاہم میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر بات چیت کی پیشکش کی، میں نے جواب دیا کہ یہ وزیر اعظم کا ایک آئینی فریضہ ہے اور میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کروں گا۔ بلاشبہ آئین کی رو سے وزیر اعظم کا موقف بالکل درست ہے اور عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی یا اس کے لیے مشاورت میں شریک کیے جانے کو اپنا حق قرار نہیں دے سکتے۔ جہاں تک آئندہ انتخابات کی تاریخ کی بات ہے تو موجودہ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم گزشتہ دنوں یہ اعلان کرچکے ہیں کہ انتخابات گیارہ ماہ بعد ہوں گے۔اس کے بعد تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کے پاس اپنا سیاسی کردار پرامن، تعمیری اور موثر طور پر ادا کرنے کا واحد آئینی طریقہ پارلیمنٹ میں واپسی ہے جس کی ہدایت چیف جسٹس پاکستان بھی انہیں کرچکے ہیں۔ اپوزیشن میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے رویوں اور اقدامات سے ملک کی سلامتی ہی کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔ میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پاکستان کی ہموار ترقی کیلئے ناگزیر ہیں کیونکہ اسی طرح بنیادی پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھا جاسکتا ہے جس کے بغیر کوئی بھی ملک مستحکم نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہم پون صدی میں بھی یہ راستہ اختیار نہیں کرسکے جس کی وجہ سے ہر کہ آمد عمارت نوساخت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پوری مدت میں معاملات ایڈہاک ازم کا شکار رہے۔ ملک اور قوم کا مفاد کسی بھی محب وطن قیادت کے لیے مقدم ہونا چاہیے جس کا تقاضا ہے کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس آکر موجودہ حکومت کی باقی آئینی مدت میں پالیسی سازی میں اپنا کردار ادا کرے۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کا یہ مشورہ بالکل حق بجانب نظر آتا ہے کہ عمران خان اپنا رویہ سیاستدانوں والا رکھیں تو بات ہو سکتی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان مذاکرات وہاں کر رہے ہیں جہاں بات بنتی ہے اور کامیابی کی کرن نظر آرہی ہے۔ایسی صورت میں جب ریاستی ادارے یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے، انہیں سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی کوششیں ہرگز ملکی مفاد میں نہیں۔ سیاسی قوتوں کے باہمی مذاکرات ہی آئین اور جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بن سکتے ہیں جو ہر سیاسی اور جمہوری طاقت کا مقصود ہونا چاہیے۔
ملکی سیاست میں تلخ نوائی انتہا پر ہے اور یہ بیانیہ سیاسی مفاہمت کے امکانات کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ہر دھڑا اپنی جگہ خم ٹھونک کر کھڑا ہے اور اپنے موقف پر نظر ثانی سے انکارکیے ہوئے ہے۔ اس صورتحال میں پس پردہ رابطوں کی جو تھوڑی بہت کوششیں ہوئیں وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ پس پردہ رابطہ کاری کی کوششوں سے حکومت اور حکومت کے مخالف فریق میں پیش رفت کی خواہش کا احساس تو کیا جاسکتا ہے مگر فریقین کی ہٹ دھرمی مفاہمت کی پیش رفت کی راہ روکے کھڑی ہے۔ اس صورتحال میں نقصان ملک اور عوام کا ہے جو سیاسی بے یقینی کی اس کیفیت میں پچھلے چھ ماہ سے پِس رہے ہیں۔ یہ دورانیہ اگرچہ کئی عالمی عوامل کی وجہ سے بھی کساد بازاری کا شکار تھا جس کے اثرات متعدد مستحکم معیشتوں پر بھی نظر آتے ہیں مگر وطن عزیز میں اس دورا ن سیاسی بے 
یقینی نے اس بحران میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔ ایک ایسا دور جب ملک اور عوام کو سیاسی قیادت کی یکجہتی اور ہم آہنگی کی ضرورت تھی تا کہ جمہوری دانش کے ساتھ درپیش مسائل سے نمٹنے کی راہیں نکالی جاتیں ان حالات میں ہمارا سیاسی بحران معاشی مسائل کو دو آتشہ کرنے کا سب بنا۔اس صورتحال میں ضروری تھا کہ سیاسی اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی مگر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے حکومت اور حکومت مخالف دھڑے منفی بیانیے کے ہتھیاروں سے کھیلتے رہے۔ صحت مند اور نتیجہ خیز مکالمے کے لیے سیاسی فریقین میں بیانیے کی شدت کو کم کرنے اورایک دوسرے کو قبول کرنے پر آمادگی ضروری ہے صرف اسی صورت سیاسی بات چیت کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے۔ مطالبات کی نوعیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے مگر سب سے ضروری یہ ہے کہ آپس میں اعتماد پیدا کریں اور یہ ایک دوسرے کیلئے احترام کے ذریعے ہو گا۔ دشنام طرازی، بہتان اور الزامات عائد کرنے میں ہماری سیاسی قیادت نے پچھلے چھ ماہ کے دوران جو ترقی کی ہے اس کا مقابلہ ماضی کی کئی دہائیوں سے ممکن نہیں۔ ملکی تاریخ میں شدید ترین سیاسی اختلافات والے کسی بھی دورانیے میں مخالفین کے لیے اتنی منفیت اور تلخی نہیں رہی جتنی کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران دیکھی گئی ہے۔ وہ سیاسی رہنما گفتگو کا سلیقہ اور شائستہ پن ہی جن کی پہچان تھی منفی بیانیے کے اس دور میں ان وضع داروں نے بھی عامیانہ پن اختیار کیا۔ اس طرزِ سیاست اور سیاسی مخاصمت کا نقصان ملکی سیاست اور قومی مزاج کو ہوا۔ سیاسی قائدین جو زبان استعمال کرتے ہیں ان کے فالورز کی ذہن سازی کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ وہ رہنما جو اپنے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے اس رویے کے اجتماعی نقصانات کو بھی سمجھیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا سیاسی بحران ایسا پیچیدہ نہیں کہ بات چیت سے حل نہ ہو سکے۔ آ جا کر دو تین ہی تو مطالبات ہیں ان میں آپ انتخابات کو مرکزی نکتہ سمجھ لیں کیا یہ قبل از وقت ہونے چاہئیں یا اپنے وقت پر جو کہ زیادہ دور نہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت جس کے پاس اگلے پانچ سال کے اقتدار کا مینڈیٹ ہو ملکی مسائل سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے تو قبل از وقت انتخابات میں بھی کوئی حرج نہیں۔ فی الواقع موجودہ حکومت کی چھ ماہی کارکردگی سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اقتدار کے باقی ماندہ مختصر دورانیے میں اس کے لیے ان ہمالیائی چیلنجز سے نمٹنا ممکن نہ ہو گا؛چنانچہ کیوں نہ متبادل صورتوں پر غور کر لیا جائے مگر یہ سلسلہ دھونس سے تو ممکن نظر نہیں آتا۔ آپ کسی سے منطق دلیل سے بات منوا سکتے ہیں مگر بزور کسی پر اپنی رائے کیونکر مسلط کرسکتے ہیں؟ یہی بات اس سیاسی جماعت کے لیے قابل غور ہونی چاہیے جو ان دنوں جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔

مصنف کے بارے میں