پاکستانی جامعات کی مالی مشکلات کیسے حل ہوں؟

پاکستانی جامعات کی مالی مشکلات کیسے حل ہوں؟

ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کے لئے مختص بجٹ زیر بحث آتا رہتا ہے۔ برسوں بلکہ عشروں سے ہم سنتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارا تعلیمی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ماہر ین تعلیم بھی اکثر اس بات پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے ہمیں نظام تعلیم اور اس سے جڑے مسائل کے حل پر توجہ دینا ہو گی۔ یقینا تعلیمی بجٹ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس ضمن میں ملائشیا کی مثال دی جاتی ہے۔جب ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائشیا کی باگ ڈور سنبھالی، انہوں نے تعلیم کے لئے سب سے زیادہ بجٹ مخصوص کر دیا۔اور ہائیر ایجوکیشن کو تعلیمی پالیسی میں خاص اہمیت دی۔ اس تعلیمی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ آنے والے برسوں میں ملائشیا نے ترقی کی کئی منازل طے کیں۔ آج ملائشیا کی کئی جامعات اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان میں جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنا سالانہ بجٹ پیش کرتی ہیں،میڈیا سمیت مختلف حلقے تعلیم کے بجٹ کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ حکومت پر زور دیتے ہیں کہ شعبہ تعلیم کے لئے مناسب بجٹ مخصوص کیا جائے۔ لیکن حکومتیں بھی کیا کریں کہ ان کی اپنی مجبوریاں اور ترجیحات ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فنڈز کی تقسیم کے وقت شعبہ تعلیم کی بار ی بیشتر شعبوں کے بعد آ تی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواہ سکول ایجوکیشن ہو یا ہائیر ایجوکیشن، سارا سال ہمیں فنڈز کی کمی کا نوحہ سننے کو ملتا ہے۔
پاکستان کے شعبہ تعلیم میں گزشتہ ایک دہائی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اس کی وجہ نجی تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔ ہزاروں اسکول اورسینکڑوں کالج اور یونیورسٹیاں نجی شعبے کی دین ہیں۔اگرچہ نجی تعلیمی اداروں کے ناقص معیار تعلیم کا پہلو ایک حقیقت ہے۔ لیکن سرکاری تعلیمی ادارے بھی اس حوالے سے کچھ کم نہیں ہیں۔ فی الحال معیار کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی سرمایہ کاری کی بدولت ہماری شرح خواندگی کے اشاریے بہتر ہوئے ہیں۔ بصورت دیگر سرکاری ادارے طالب علموں کی اتنی بڑی تعداد سمونے سے قاصر تھے۔ عمومی طور پرنجی تعلیمی اداروں کو فنڈز کی کمی کا معاملہ شاذ و نادر ہی درپیش ہوتا ہے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ نجی تعلیمی ادارے ایک کاروبای ادارے کی طرح بروئے کار آتے ہیں۔ یہ طالب علموں سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کرتے ہیں۔ ان فیسوں کے بدولت انہیں سہولت کیساتھ ڈگری فراہم کی جاتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔ سرکاری اداروں کی فیسیں نہایت معمولی ہوتی ہیں۔ سکولوں میں تو فیس نہ ہونے کے برابر ہے، جامعات میں بھی معمولی فیس وصول کی جاتی ہے۔ یعنی وہ اعلیٰ تعلیم جو پرائیویٹ کالج یا یونیورسٹی کئی لاکھ روپے فیس کے عوض دیتا ہے، سرکاری یونیورسٹی میں اس ڈگری کیلئے محض چند ہزار روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرکاری جامعات کو فنڈز کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ادارے کبھی ہائیر اجوکیشن کمیشن کی طرف دیکھتے ہیں۔ کبھی کسی وزارت یا حکومت کی جانب۔ جیسا کہ عرض کیا کہ حکومتوں کی اپنی مجبوریاں اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ بسا اوقات انہیں ایجوکیشن بجٹ میں کٹوتی کر کے اسے دیگر منصوبوں کیلئے فنڈز جاری کرنا پڑتے ہیں۔ لہذا جامعات کو فنڈز کی کمی درپیش رہتی  ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں جامعات کیا کریں؟ نجی یونیورسٹیاں تو بڑھتی مہنگائی اور اخراجات کے جواز پر اپنی فیسوں میں وقتا فوقتا اضافہ کرتی رہتی ہیں۔سرکاری ادارے ایسا کریں تو انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چند دن پہلے میرے علم میں یہ بات آئی کہ جامعہ پنجاب کی فیسوں میں گزشتہ بائیس سالوں سے اضافہ نہیں ہوا۔ یعنی بائیس برس پہلے جو فیس وصول کی جاتی تھی، آج بھی وہی فیس لی جاتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ آج سے بائیس برس پہلے بجلی کے یونٹ کی کیا قیمت تھی۔گیس کا کیا ریٹ تھا۔ پٹرول، ڈیزل کس بھاو بکتا تھا۔ اساتذہ کی تنخواہیں کیاتھیں۔ اینٹ، مٹی، سیمنٹ، سریے کے کیا ریٹس تھے۔ یقینا آج میں اور بائیس سال پہلے کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔لیکن جامعہ بنجاب کی فیس وہیں کی وہیں ہے۔ نجانے جامعہ کے ارباب اختیار نے گزشتہ بائیس برس میں اس حوالے سے مناسب اقدام کیوں نہ اٹھائے۔ اطلاعات ہیں جامعہ پنجاب کے اساتذہ اور ملازمین میں جامعہ کی نازک مالی حالت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
اس موضوع پر پنجاب کے سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کا ایک بیان میری نگاہ سے گزرا۔ سیکرٹری صاحب کا کہنا ہے کہ جامعات کے اساتذہ اور طالب علم حکومتوں کو اپنی خدمات پیش کر کے فنڈز حاصل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجینئرنگ، آئی۔ٹی۔ سمیت دیگر یونیورسٹیاں اس ضمن میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔سیکرٹری صاحب کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے۔ یقینا جامعات افرادی قوت پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہوتی ہیں۔ لیکن اساتذہ  کا اولین فریضہ یہ ہے کہ طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ پہلے ہی ہائیر یجوکیشن کمیشن  پر تنقید ہوتی ہے کہ اس نے اساتذہ کی ترقی کو تحقیقی مضامین کی اشاعت سے جوڑ کر ان کی توجہ کلاس روم اور طالب علموں سے ہٹا دی ہے۔ یہ تنقید بھی ہوتی ہے کہ اساتذہ کو ریسرچ کے نام پر جو مالی فوائد یا  incentive  دئیے جاتے ہیں، اس کمائی کے چکر میں بھی استاد کی توجہ بٹ کر رہ گئی ہے۔ اب اگر اساتذہ حکومتوں کو خدمات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگیں تو وہ پیسے کمانے کی مشین بن کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر نوجوانوں کو زیور تعلیم سے کون آراستہ کرئے گا؟
دنیا بھر میں جامعات کو حکومتیں فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھاری بھرکم فنڈز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جامعات اپنے انٹرنیشل طالب علموں سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کر کے فنڈز کا بندوبست کرتی ہیں۔ باہر کے ممالک میں یہ اچھی روایات بھی موجود ہیں کہ جامعات کے ایسے فارغ التحصیل یا سابق طالب علم جواپنے اپنے شعبوں میں قدم جما چکے ہوتے ہیں، وہ جامعات کی مالی امداد کرتے ہیں۔معاشرے کے اہل خیر بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔  جامعات بھی سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اپنی بچت کی رقم سے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔ انڈومنٹ فنڈز قائم کر کے بھی فنڈز جنریٹ کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں محدود فنڈز دیتی ہیں۔ ڈگری کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ے کہ انٹرنیشنل طالب علم یہاں کھینچے چلے آئیں۔ سابق طالب علم اور فارغ التحصیل طالب علم ڈگری لینے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ اہل خیر دینی مدارس کی مدد کر کے ثواب کمانے کو کافی سمجھتے ہیں۔ انڈوومنٹ فنڈز اور سرمایہ کاری کے لئے معمولی رقم موجود ہوتی ہے۔ بہت اچھا ہو اگر ہمارے ہاں بھی دیگر ممالک ہی کی طرح فنڈز حاصل کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ جامعات کے اساتذہ حکومت کو اپنی خدمات فراہم کرنے کے عوض فنڈز کمائیں یا نہ کمائیں، انہیں چاہیے کہ اس ضمن میں آگاہی پیدا کریں۔ دیگر ممالک ہی کی طرح فارغ التحصیل  یا سابق طالب علموں اور اہل خیر کو جامعات کی امداد کی طرف مائل کریں۔ فی الحال تو شعبہ تعلیم کی ذمہ داری حکومتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ حکومتیں تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔ تعلیم کو بھی شعبہ دفاع  اور ترقیاتی منصوبوں جیسی اہمیت دیں۔ کاش حکومتیں یہ بات سمجھ جائیں کہ تعلیم کا شعبہ ترقی کرئے گا تو پاکستان ترقی کرئے گا۔ 
کالم لکھ رہی ہوں تو خبر آئی ہے کہ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان لانگ مارچ میں ٹانگ میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں۔ انہیں ہسپتال داخل کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی حالت مستحکم ہے۔اس حادثے میں ایک آدمی کی ہلاکت ہوئی ہے اور چند لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک جاں بحق ہونے والے کی مغفرت فرمائے اورعمران خان سمیت سب زخمیوں کو صحت عطا فرمائے۔ آمین۔ 

مصنف کے بارے میں