دیوالیہ ہوتی ایٹمی ریاست

Dr Ibrahim Mughal, Daily Nai Baat, e-paper, Pakistan, Lahore

Might is Right کے اصول کے تحت دنیا کی طاقتوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ کمزور ملکوں سے ان کی ضرورتوں کے معاوضے کے تحت ان کی پراپرٹیز یعنی ان کے اثاثوں کو خرید لیا جائے۔ گزشتہ تین سال کے دوران وطن عزیز کی جس طرح معاشی تباہی ہوئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ تباہی جو خطرناک حدود کو کراس کرچکی ہے اب بھی اگر نہیں رکی تو صاف لگتا ہے کہ تو معاشی طور پر دیوالیہ ریاست کو کہا جائے گا کہ 100 بلین ڈالر لے لو اور ایٹم بم ہمارے حوالے کر دو۔ زیادہ افسوس تو اس وقت ہوا جب ملک کے وزیراعظم عمران خان نے بیان دیا کہ اگر بھارت سے دشمنی ختم ہوگئی تو ایٹم بم کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ جہاں تک دیوالیہ ہونے کی بات ہے تو یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عالمی بینک کی طرف سے کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کا اشارہ اعداد و شمار کا مکمل جائزہ لینے اور حتمی نتائج اخذ کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں دیوالیہ ہونے کا اشارہ اس وقت آیا جب مورگن اسٹینلے کیپیٹلز نے پاکستان کی ریٹنگ کم کرکے دسمبر کے بعد اسے سرمایہ کاری کے لیے غیرمحفوظ مارکیٹ قرار دے دیا۔ اور اب عالمی بینک نے وارننگ جاری کردی ہے کہ دسمبر کے بعد خسارہ اڑھائی کھرب روپے سے بڑھ جائے گا۔ جس کے باعث افراطِ زر کی شرح 13 فیصد کی خطرناک سطح پر پہنچ جائے گی۔ افراطِ زر 13 فیصد ہوگی تو غربت اور بے روزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ تین سال کے دوران بے تحاشا قرضے لینے اور ان قرضوں کو غیرترقیاتی کاموں پر لگانے کی وجہ سے ملک کے مجموعے قرضے 82 فیصد معاشی حجم کے برابر پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں معیشت کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنا اب ممکن نہیں ہے۔ یاد دلادوں کہ 4 سال پہلے مورگن اسٹینلے نے پاکستانی مارکیٹ کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں ترین قرار دیا تھا۔ جبکہ عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی نمو کی شرح فیصد کو ایشیا کی بہترین معاشی نمو قرار دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تین سال میں ایسا کیا ہوگیا کہ ایشیا کی بہترین معیشت اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں ترین مارکیٹ کا موزوں ترین ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے۔ وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ کسی بھی ملک کے امور حکومت چلانے کے لیے قابل اور ذہین لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا کی معیشت کو سمجھتے ہوں۔تعویذ گنڈوں سے عثمان بزدار جیسے لوگ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر تو تشریف فرما ہوسکتے ہیں لیکن ملک نہیں چلا کرتے۔ ملک کو چلانے کے لیے سائنسی اور معاشیاتی اصولوں پر کاربند ہونا پڑتا ہے۔ صرف سخت بیانات اور دھمکیاں دینے سے کام نہیں چلا کرتے۔ ریاست مدینہ کے طور پر ملک چلانے والے سربراہ کو خود بھی اور کسی کے
سامنے نہیں اپنے ضمیر کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ایمانداری کا پول اس وقت کھلتا ہے جب آپ کے سامنے ہیرے اور سونے کی چمک ہو اور انہیں دیکھ کر آپ کی آنکھیں نہ چندھیائیں۔ آپ کے منہ سے رال نہ ٹپکے۔
گزشتہ سربراہوں کو جو تحفے ان کے بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران ملے ان پر وہ کس طرح قابض ہوئے یہ سب قصے ہم سنتے آئے تھے۔ خیال تھا کہ ریاست مدینہ کی بات کرنے والا وزیر اعظم عمران خان ان سربراہوں سے تحفے واپس لے کر توشہ خانے میں جمع کرادے گا۔ مگر دل کو دھچکا تو اس وقت لگا جب ان سے انہیں اور خاتون اول کو ملنے والے تحفوں کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ یہ قومی راز ہے۔ جب دوبارہ پوچھا تو کہہ دیا گیا کہ اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں۔ بار بار جواب نہیں دوں گا۔ یہ ہے وہ رعونت جو اُن کے ساتھ چپکی ہوئی ہے۔قومی اسمبلی میں جاتے ہیں تو وہاں کسی سے ہاتھ ملانے کو اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ یہ رعونت تو ان کی 1992ء میں اس وقت بھی عیاں ہوگئی تھی جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تھا۔تب انہوں نے جیت کا تمام تر کریڈٹ خود لیتے ہوئے ٹیم کے کھلاڑیوں کو یکسر یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ آج میں نے ورلڈ کپ جیت کر اپنے خواب کی تعبیر پالی ہے۔ ویسے ورلڈ کپ جیتنے کی اصطلاح کا استعمال انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار کے دوران امریکہ کے وزٹ سے واپسی پر بھی کیا۔ ٹرمپ نے بڑی چالاکی سے کام لیتے ہوئے اس دورے کے دوران مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا اور جناب عمران خان نے اسے اپنی ایسی فتح خیال کیا کہ وطن واپس آکر بیان دیا کہ مجھے تو لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر میں ورلڈ کپ جیت کر واپس آرہا ہوں۔
ملک کے دیوالیہ ہونے کی بات یوں کرنا پڑ رہی ہے کہ ڈالر جو 104 روپے کا تھا 173 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ پٹرول کی قیمت کو ہر ماہ پانچ پانچ روپے کے اضافے سے پر لگ رہے ہیں۔اور یو ں وہ اڑ سٹھ روپے فی لیٹر سے بڑھ کر ایک سو ستا ئیس روپے تیس پیسے فی لیٹر ہو چکا ہے۔چینی پچپن روپے سے بڑھ کر ایک سو دس روپے فی کلو ہو چکی ہے۔ گھی ایک سو پینتیس سے بڑھ کر تین سو 40روپے فی کلو ہو چکا ہے۔آ ٹا پینتیس سے بڑھ کر پچھتر روپے فی کلو ہو گیا ہے۔ چا ول ایک سو دس روپے سے بڑھ کر ایک سو پچا س روپے فی کلو ہو چکے ہیں۔ بجلی با رہ رو پے یو نٹ سے بڑ ھ کر چھبیس رو پے فی یو نٹ ہو گئی ہے۔ ایسے میں تھر کے ایک غر یب نے اپنے تین بچو ں کو کنو ئیں میں پھینک کر خو د بھی اسی کنو ئیں میں چھلا نگ لگا کر اگر خو د بھی خو د کشی کر لی تو اس میں حیر انگی کی کون سی با ت ہے؟مگر ہما رے سر بر اہو ں کی خود داری کا بھی اس حد تک دیوالیہ ہوچکا ہے کہ وزیرخزانہ شوکت ترین اس بات کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان سے تیل کی قیمت کی ادائیگی کچھ عرصے کے لیے موخر کردی ہے۔ یعنی بغلیں بجائی جارہی ہیں کہ ہم پھر کچھ ادھار لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے ملک سے کرپشن ختم کرنے کا ڈھنڈورا تو پیٹ رہے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان کے دوست کرپشن میں ملوث پائے جاتے ہیں تو وہ انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے منظر سے غائب کردیتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ فکر معاش اور مہنگائی میں عوام کے ذہنوں کو اس حد تک مصروف کردیا ہے کہ جب ان کی شکلیں نہیں دیکھیں گے تو کچھ ہی عرصہ میں بھول جائیں گے۔ مگر خود بھی ان کا یہ حال ہے کہ وہ اب تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ ملک کو زرعی طور پر آگے لے کر چلیں یا انڈسٹریل طور پر۔ لگتا ہے کہ ان کی سوچ انتہائی Impulsive ہے۔ تبھی تو وہ کبھی بھیڑ بکریاں پالنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی انڈے مرغی کی گھریلو صنعت کی بات کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ انہیں پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا کس قدر ادراک ہے۔ ایٹمی قوت بننے کے لیے اس ملک نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ یہ کہنا کہ اگر بھارت سے دشمنی ختم ہوجائے تو ہمیں ایٹم بم کی ضرورت نہیں رہے گی صرف اسرائیل، امریکہ اور بھارت کو خوش کرنے کی کارروائی سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں۔