’’چائے کی پیالی / مقدّر‘‘

’’چائے کی پیالی / مقدّر‘‘

رات کے قریب دو بجے ، وہ چائے کی پیالی ہاتھ میں لئے دالان میں داخل ہوا ، لیکن اتنی دیر میں چائے طلب کرنے والے کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگ چْکی تھی اور اْنہیں پھانسی گھاٹ کی طرف لے جانے کا وقت ہو چکا تھا۔ 
یہ منظر 4 اپریل 1979کا ہے ، جس روز ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچا گیا ، جبکہ ابھی وہ اپنی عمر کے صرف باون ویں (52) سال میں داخل ہوئے تھے۔
بھٹو صاحب نے اپنے وفا دارمشقتی عبدالرحمن کی طرف دیکھا جو چائے کی پیالی ہاتھ میں لئے پیش کرنے کیلئے کھڑا تھا ، لیکن اْس چائے کا پینا شاید ۔۔ نہیں ، بلکہ یقیناً بھٹو صاحب کے مقدّر میں نہ تھا کہ کہ اْن کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ اسی کو مقدّر کہتے ہیں کہ وہ صاحبِ اقتدار شخص جو کبھی سیاہ و سفید کا مالک تھا اور جسکے ابرو کے ایک اشارے پر جو چاہا ، وہ دنیا کے کسی بھی حصّے سے منگوا کر حاضر کیا گیا ، لیکن آج وہ ایک چائے کی پیالی بھی نہ پی سکے کہ اْس کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ خالقِ کون و مکاں کا ارشاد ہے۔
( ترجمہ :سورہ النحل) یعنی جب اْن کی معیاد آ پہنچے تو نہ وہ اس سے ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ہی آگے بڑھا سکتے ہیں۔
3 اپریل کی شام چھ بجکر پانچ منٹ پر ، بھٹو کوتختہ دار پر کھینچے جانے کی اطلاع دی جا چکی تھی۔ عینی شاہد، کرنل رفیع اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ‘‘ بھٹو کے آخری 323 دن’’ میں لکھتے ہیں کہ جب اْنکی موجودگی میں جیل سپرنٹنڈٹ یار محمد ، بھٹو صاحب کو بلیک وارنٹ پڑھ کر سْنا رہا تھا تو بھٹو صاحب اپنے سیل میں فرش پر بچھے گدّے پر بغیر کسی پریشانی اور گھبراہٹ کے لیٹے رہے کہ اْنہیں یقیں تھا کہ یہ سب ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ، لیکن جب اْنہیں یقیں ہوا کہ یہ ڈرامہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اْنکی آنکھیں وحشت اور گھبراہٹ کے باعث پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
بھٹو صاحب نے اپنے مشقّتی عبدالرحمن سے گرم پانی لانے کو کہا کہ وہ شیو بنانا چاہتے تھے کیونکہ اْنہوں نے بھوک ہڑتال کے دوران شیو تک کرنا چھوڑ دی تھی۔ پھر کہا کہ ‘‘ میں بلڈی مْلَّا نہیں کہ ایسی حالت میں خداوند تعالیٰ کے سامنے جاؤں’’ ( صفحہ 811۔ بھٹو کے آخری 323دن)
فرزندِ اقبال جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال اپنی خود نوشت سوانح عمری ‘‘ اپنا گریباں چاک’’ کے صفحہ ۲۳۱ پر بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ضیاعی عدلیہ میں اکھاڑ بچھاڑ کے بعد بھٹو پر ایک پرانی ایف آئی آر کی بنا پر قتل کا مقدمہ قائم کیا گیا جسکی سماعت بوجوہ براہِ راست لاہور ہائیکورٹ میں ہونا قرار پائی۔ اگرچہ اس مقدمے کے دوران جسٹس صمدانی نے بھٹو کو ضمانت پر رہا کر دیا ، لیکن چیف جسٹس مولوی مشتاق نے ضمانت منسوخ کر دی اور ازاں بعد ، جسٹس صمدانی کو ججی کے منصب سے بھی ہٹا دیا۔ 
پھر فرزندِ اقبال نے کچھ عجیب لکھا ‘‘ پس کچھ مدت سے بھٹو کیلئے آسمانوں میں جو’’ تانا بانا‘‘ بُنا جا رہا تھا ، وہ مکمل ہوا۔ خوش الحان چڑیا (بھٹو) اب جال میں پھنس چْکی تھی اور اْسکی تقدیر کا فیصلہ کرنیوالے جج صاحبان ، چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین ( جو کیس کی شنوائی سے قبل ہی ببانگ دہل کہتے تھے کہ یہ تو ایک open & Shut کیس ہے) کی سرکردگی میں بیٹھ چْکے تھے ‘‘
پاکستان کرونیکل کے مصنف اور1965 میں پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر سر جیمز مورس نے تاجِ برطانیہ کو ایک مراسلہ بھیجا ، جس میں لکھا کہ ‘‘ بھٹو، تختہ دار پر کھینچے جانے کیلئے پیدا ہوا تھا’’۔سر جیمز مورس نے ایسا کیوں لکھا ، اس پر تفصیلاً عرض کروں گا اپنے اگلے کالم میں ان شاء اللہ۔
معروف شاعر امجد اسلام امجد کی نظم ‘‘ خدا اور خلقِ خدا’’ کی آخری تین لائنیں غور طلب ہیں۔
ہر راج محل کے پہلو میں ایک رستہ ایسا ہوتا ہے 
مقتل کی طرف جو کھلتا ہے اور بن بتلائے آتا ہے 
تختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے

مصنف کے بارے میں