سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل دوپہر 12 بجے تک ملتوی، عدالت نے پنجاب اسمبلی کی اپ ڈیٹس طلب کر لیں

سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل دوپہر 12 بجے تک ملتوی، عدالت نے پنجاب اسمبلی کی اپ ڈیٹس طلب کر لیں

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک کی آئینی سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل دوپہر 12 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے اور عدالت نے کل کی سماعت میں پنجاب اسمبلی کی اپ ڈیٹ طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعلیٰ کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑی رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے ابھی تک پنجاب پر کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں کیا تھا۔ اتنا بتا دیں کل پنجاب میں وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوگا یا نہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے، حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے، پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے، اس کی عدالت انکوائری کرائے، سپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کریں گے۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعلیٰ کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل کس وقت پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو گا؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ساڑھے گیا بجے ہو گا۔ 
قبل ازیں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاءبندیال نے ڈپٹی سپیکر رولنگ ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے آئینی یا غیر آئینی ہونے پر بحث ہوئی؟ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ ملک کی آئینی سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو  خاتون درخواست گزار نے عدالت میں درخواست دی کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آجائے گا، اسد مجید کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا۔
خاتون کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ چاہتے ہیں آج دلائل مکمل ہوں اور عدالت مختصر حکم نامہ جاری کر دے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم جاری کریں گے اگر سارے فریقین دلائل مکمل کرلیں۔ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ میں عدالت میں تحریری دلائل دے رہا ہوں اور 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔ 
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بدنیتی پرمبنی ہے،عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سے 9 باربدنیتی پرمبنی اقدامات کئے گئے، تحریک عدم اعتماد 8 مارچ سے زیر التوا تھی مگر ڈپٹی سپیکر نے پارلیمینٹ کے سامنے دستاویزات رکھے بغیر رولنگ دےدی، قومی اسمبلی رولز28 کے تحت ڈپٹی سپیکرکے پاس اختیارات ہوں تب بھی رولنگ نہیں دے سکتا اور تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر مسترد نہیں کی جا سکتی، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیرقانونی ہے۔ 
انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد آنے کے بعد سپیکر کے پاس تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں، ڈپٹی سپیکرکی آرٹیکل 5 کو بنیاد بنا کر رولنگ خلاف آئین ہے کیونکہ آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر دی گئی مدت میں ووٹنگ ہونا لازمی ہے جبکہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آرٹیکل 69 کا تحفظ نہیں رکھتی۔ وزیراعظم عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی نہیں توڑ سکتے، تحریک عدم اعتماد کو آئین کے تحت مسترد نہیں کیا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد صرف تب ختم ہوسکتی ہے جب جمع کرانے والے واپس لے لیں۔عدالت سے استدعا ہے کہ عدالت نیشنل سیکیورٹی کونسل میٹنگ کے منٹس اورکیبل طلب کرنے کا حکم دے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے پارلیمینٹ کی کارروائی پڑھ کر سنائی اور استدعا کی کہ عدالت سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کرے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال نے سپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے طریقہ کار پر آئین خاموش ہے، کیا ایک بار 20 فیصد اراکین کی حمایت سے تحریک پیش ہونے کے بعد سپیکر کا اختیار نہیں رہتا؟ کیا سپیکر تحریک پیش ہونے پر صرف ووٹنگ کرا سکتا ہے؟ ،
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت کے بعدع بحث کا مرحلہ آتا ہے، تحریک عدم اعتماد کے آئینی یا غیر آئینی ہونے پر بحث ہوئی؟ ہمارے سامنے سوال ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی کیا آئینی حیثیت ہے؟ آئین کے احکامات رولز سے بالادست ہوتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے وقت 20 فیصد اراکین اسمبلی موجود تھے۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے وقت 20 فیصد ممبران کی موجودگی کا مقصد کیا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال ڈپٹی سپیکر کی رولنگ قانونی یا غیر قانونی ہونے کا ہے، کیا جوڈیشل ریویو سے رولنگ واپس ہو سکتی ہے۔ 
مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے رولنگ واپس کر دے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے غیر قانونی عوام کو عدالت جانچ سکتی ہے، اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد پر غیر قانونی عوام کو جانچ سکتی ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمینٹ میں چھوٹی سی غیر قانونی حرکت پر عدالت کو مداخلت کا اختیار ہو گا، آپ عدالت کے دروازے پارلیمینٹ کی کارروائی کیلئے کھول رہے ہیں، کیا آئین یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی ہر غیر قانونی حرکت پر فیصلہ دے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ بار پارلیمانی کارروائی یا رولنگ غیر قانونی قرار دینا شروع کر دے تو مقدموں کے انبار لگ جائیں گے۔ 
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسی چیف کو ان کیمرا سماعت میں بلا کر بریفنگ لے سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہماری پریکٹس نہیں کہ ریاستی پالیسی یا فارن پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں، عدالت کی پالیسی معاملات کو دیکھنے کی پریکٹس نہیں، ہمارے لئے آسان ہو گا کہ اگر معاملے کو قانون و آئین کے تناظر میں پرکھا جائے۔

مصنف کے بارے میں