ادارے بتائیں کیا قومی سلامتی کمیٹی میں 197 ایم این ایز کو غدار قرار دیا گیا؟ بلاول بھٹو کا ایک بار پھر مطالبہ 

ادارے بتائیں کیا قومی سلامتی کمیٹی میں 197 ایم این ایز کو غدار قرار دیا گیا؟ بلاول بھٹو کا ایک بار پھر مطالبہ 
سورس: File

اسلام آباد : چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے یہ بہت ضروری ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک دوسرے افراد کا مؤقف بھی سامنے آئے کیونکہ اس اجلاس کے نتیجے میں وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان کے ستر فیصد اراکین غدار ہیں۔

بی بی سی  کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستانی فوج سے وضاحت کا مطالبہ اس لیے کیا تاکہ ادارے اپنا موقف واضح کریں اور بتائیں کہ کیا قومی سلامتی کے اجلاس میں 197 اراکین کو غدار قرار دیا گیا؟

انھوں نے کہا کہ ’اس اجلاس کے میٹنگ منٹس موجود ہوں گے یا وہ ادارے خود بھی اس حوالے وضاحت دے سکتے ہیں کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں زیر بحث آنے والے دھمکی آمیز خط کے معاملے میں حقیقت کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں کسی بیرونی سازش کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ ’اس اعلامیہ میں غیر سفارتی زبان اور ملک کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کا ذکر ہوا۔ تو یہ معاملہ ناصرف عوام بلکہ عدلیہ کے سامنے واضح ہونا بہت ہی ضروری ہے۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اس غیر سیاسی فورم (قومی سلامتی کمیٹی) کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جو افسوسناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس بہانے کو استعمال کرتے ہوئے آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں اور تحریک عدم اعتماد سے بھاگے ہیں۔

  

بلاول بھٹو کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ہم تو بہت عرصے سے وزیر اعظم عمران خان کی سلیکٹڈ حکومت کو ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے کیونکہ اُن کی حکومت کے نتیجے میں ملک میں ایک معاشی بحران پیدا ہوا اور ہر پاکستانی بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے۔

  

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس حکومت کے خلاف ڈٹ کے تین سال مقابلہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہم نے اس حکومت کے خلاف نہ صرف پارلیمان کے باہر بلکہ پارلیمان کے اندر بھی مقابلہ کرنا ہے اور عدم اعتماد لا کر ان کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس اقدام سے ہم نے اُن کی حکومت کا خاتمہ کر دیا، تو اگر ہم عام اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہوتے تو ہمیں اس بات پر ہی خوش ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہم چاہتے تھے کہ ایک آئینی طریقے سے حکومت کا خاتمہ ہو اور ہم جمہوری طریقے سے ایک صاف و شفاف انتخابات کی جانب بڑھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تین اپریل کو جو اقدام وزیر اعظم نے کیا ہے وہ ایک غیر آئینی طریقے سے کی جانے والی بغاوت ہے تاکہ وہ تین چار دن کے لیے مزید وزیر اعظم رہ سکیں۔

 اس سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو نے کہا کہ ’عمران خان اگر وہ کوئی غیر آئینی یا غیر جمہوری قدم اٹھائیں تو یہ ان کے لیے کوئی غیر متوقع بات نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت جس کو سرپرائز کہہ رہی ہے وہ آئین شکنی ہے اور آپ آئین شکنی کو سرپرائز نہیں کہہ سکتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئین توڑنا کوئی مذاق نہیں ہے، یہ غداری کا جرم ہے اور آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی ہے۔

مصنف کے بارے میں