پھٹ پھٹی…

Ali Imran Junior, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

دوستو، ہمارا جب بچپن تھا تو ہمیں اچھی طرح یاد ہے، ہم کورنگی میں ایسی کچی بستی میں رہتے تھے، جہاں بجلی تھی نہ گیس، سیوریج کی لائنیں بھی بعد میں ڈالی گئی تھیں۔۔ اینٹوں سے بنے گھر تھے، پکی چھت کسی کی نہیں ہوتی تھی، ٹین کی چادریں ہوتی تھیں۔ ہزار،بارہ سو گھروں پر مشتمل کورنگی میں ایک سیکٹر ہوتا ہے، ہم بھی ایسے ہی ایک سیکٹر میں رہتے تھے، جہاں پورے علاقے میں صرف ہمارے چچا کے پاس ہی ویسپا تھی، ویسپا کی آوازرکشے سے ملتی جلتی ہوتی ہے، چچا وکیل تھے ، رات کو جب گھر آتے تھے تو پورے علاقے میں جہاں پن ڈراپ سائلنس ہوتی تھی، فضاؤں میں ویسپا کی ’’پھٹ،پھٹ،پھٹ‘‘ گونجتی تھی، پورے علاقے والوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ وکیل صاحب آگئے ہیں۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے جو بزرگ رہتے تھے، ہم انہیں شوکت خالو کہتے تھے۔ شوکت خالو ہمارے چچا کی ویسپا کو ’’پھٹ پھٹی‘‘ کہتے تھے، خالص انڈین اسٹائل میں اردو بولتے تھے۔شروع میں ’’دردوزی یا کارچوبی‘‘ کا کام کرتے تھے لیکن جب آنکھوں نے جواب دے دیا تو پھر انہوں نے گھر میں ہی چھوٹی سی پرچون کی دکان کھول لی،سارا دن گلی میں بیٹھے رہتے تھے، اور محلے کی ایک طرح سے چوکیداری کرتے تھے۔۔ 
کہتے ہیں کہ انسان کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جو پیدل ہوتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سائیکل ہی خرید لے، سائیکل والا کوشش میں لگا ہوتا ہے کہ کسی طرح موٹرسائیکل خریدے، موٹرسائیکل والے کو کار کی تمنا ہوتی ہے۔۔ جس کے پاس کار ہوتی ہے وہ لگژری کار کے چکر میں پڑا ہوتا ہے اور نت نئے ماڈلز بدلتا رہتا ہے۔ہم نے بھی سب سے پہلے سائیکل چلائی،سائیکل خریدنے کے بعد ہی چلانا سیکھی، اسی طرح ہماری پہلی موٹرسائیکل ہنڈا ففٹی تھی،(وہی موٹرسائیکل جس پر الطاف حسین گھوما کرتے تھے اپنے زمانے میں)۔۔ پطرس بخاری نے اپنی سائیکل کی اتنی تعریفیں کیں کہ اب سائیکل پر بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، اس لئے کچھ حال پرانی موٹرسائیکل کا بیان کرتے چلیں۔کراچی میں تو موٹرسائیکلیں اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ ایک پتھر اٹھاؤ، تین موٹرسائیکل سوار نیچے سے نکلتے ہیں۔۔ ایک بچے نے اپنے والد سے کہا ۔۔ اباابا،اگر میں پاس ہوگیا تو کون سی موٹرسائیکل دلائیں گے۔۔ ابا نے کہا سی ڈی سیونٹی۔۔بچے نے پھر پوچھا اگر فیل ہوگیا تو پھر۔۔ ابا نے کہا ۔۔فیل ہونے پر بھی موٹرسائیکل ہی دلاؤں گا، لیکن وہ یاماہا ہو گی۔۔ جس پر دودھ بیچا کرنا۔۔
اب پرانی موٹر سائیکل کے فوائدبھی سن لیں۔۔ سستا مل جاتا ہے تھوڑے سے پیسوں میں انسان پورے موٹر سائیکل کا مالک کہلاتا ہے۔۔۔ اس کے مالک کولوگ تنگ دست سمجھتے ہیں۔ کوئی شریف اور سمجھدار آدمی قرض مانگنے نہیں آتا۔۔۔ چوری چکاری کا کوئی خطرہ نہیں۔ لاک کرنے کی فکر بھی نہیں رہتی۔۔ کہیں راستے میں بند ہوجائے تو نہایت اطمینان سے فٹ پاتھ کے کنارے بغیر لاک کئے چھوڑا جاسکتا ہے۔ فلم دیکھنے جائیں تو اسٹینڈ پر کھڑا کرکے خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے قطعاً ضرورت نہیں۔ سینما کے قرب و جوار میں کہیں بھی کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ (نوٹ: لاک نہ کریں۔ ٹریفک میں دشواری کی صورت میں لوگ خودبخود کسی مناسب جگہ کھڑا کردیں گے)۔۔ اسے چالو ضرورت میں رکھنے کی فکر ہی اتنے تسلسل کے ساتھ طاری رہتی ہے کہ زندگی کے دوسرے بڑے غموں میں مبتلا ہونے کی فرصت نہیں ملتی۔۔۔ فارغ اوقات میں اس کے نٹ بولٹ کسنے ، تیل پانی چیک کرنے اور صفائی کے نام پر گھسے پٹے روغن کی مزید گھسائی، ایسے کام ہیں جو انسان کو فارغ نہیں رہنے دیتے۔ خالی دماغ میں شیطان اپنی ورکشاپ کھول لیتا ہے پرانی موٹر سائیکل شیطان کے لئے’’ نو ویکنسی ‘‘کا بورڈ ثابت ہوتی ہے۔۔۔ اردلی یا خادم کو مصروف رکھنے کا بہترین مصرف۔ ڈھیلے پیچ کسنے اور نہلائی دھلائی میں کافی دیر تک مصروف رکھا جاسکتا ہے۔۔۔ کوئی اسے عاریتاً مانگنے کی جرا ت نہیں کرتا ۔۔ اس کا مالک اس کے انشورنس کے کاغذات ہمیشہ مکمل رکھتا ہے۔ چھوٹے موٹے حادثوں کی پروا نہیں کرتا بلکہ ان کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ دوستوں کے حلقوں میں دلیر، بے باک ، نڈر ، بے خوف جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔۔۔ اس سے نکلتی ہوئی آوازیں اس کی انفرادیت کا آئینہ دار ہوتی ہیں۔ اس کا شور چار دانگ عالم میں مشہور ہوتا ہے۔ گھر پرنام کی تختی نہ بھی ہو تو باآسانی ان تک پہنچا جاسکتا ہے۔۔۔ اس کے سوار میں ’’توکل علی اللہ‘‘ بڑھ جاتاہے۔ ثواب کمانے کے متعدد مواقع حاصل رہتے ہیں۔ سوار ہونے پر سواری مسخر کرنے پر خدا کا شکر ، بریک فیل ہونے پر یاد آنے والے ادھورے کلموں کا ورد، کلچ وائر ٹوٹ جانے پر ''یا اللہ تیراہی آسرا ہے '' کہتے ہوئے سفر جاری رکھنا' بھری پڑی سڑک پر ٹائر پنکچر ہونے پر پٹاخ کی آواز کے ساتھ اناللہ پڑھنا اورمذکورہ بالاکوئی صورت پیش نہ آئے تو بار بار خدا کا شکر کہ '' چلی جارہی ہے خدا کے سہارے ''۔۔۔ اس کا مالک اسپیئر پارٹس کے صنعت کے فروغ اور کباڑیوں کی سرپرستی میں ہر دوسرے تیسرے دن بھرپور حصہ لیتا ہے۔۔۔ پرانے پرزوں کے بازاروں اور کباڑیوں کی دْکانوں پر باربار آمد ورفت اس کے مالک کے حلقہ دوستی میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔ معاشرے سے اجنبیت کم ہوتی ہے۔۔ اس کے مالک کی تمام تر عملی کوششوں کے باوجود زیادہ وقت یہ کھڑا رہ کر گزارتا ہے۔۔۔ پٹرول کی بچت ہوتی ہے۔۔ کچھ مالکان نئے موٹر سائیکل کے لئے رقم کی فراہمی کی خاطر کسی غیرمتوقع ، اچانک اور خوشگوار واقعے کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق کمیٹیاں ڈالتے یا پرائز بانڈ خریدتے ہیں اور یوں قوم کی مجموعی بچت میں اضافہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کے استحکام میں براہِ راست حصہ لیتے ہیں۔۔۔ اس کا سوار، ٹریفک کے اصولوں کی بھرپور پابندی کرتا ہے۔ تیز رفتاری سے گریز کرتا ہے۔ موقع ملنے کے باوجود اوور ٹیکنگ سے باز رہتا ہے۔۔ ٹریفک پولیس کا سپاہی ایک آدھ بار تو اسے روکنے کی حماقت کرسکتا ہے لیکن چوک خالی کرانے کے لئے بنفس نفیس اسے دھکا لگانا پڑے تو پھر دو ر سے آتا دیکھ کر دْعا کرتا ہے کہ وہ اس کے ذمہ داری کے علاقے سے بخیریت گزر جائے۔ پولیس کی طرف سے کسی شہری کے حق میں دعائے خیر، یہ رتبہ بلندملا جس کو مل گیا۔۔انیس سو ننانوے میں جب ہم ایک مشہور اخبار میں کام کرتے تھے تو ہمارے ایک سب ایڈیٹر نے ہم سے کہا کہ آپ بسوں میں کیوں خوارہوتے ہیں، ہم آپ کو اسٹاپ سے لے لیاکریں ہمارے ساتھ بائیک پر چلا کریں، ہم نے ہامی بھرلی، پہلے دن ان کی ’’پھٹ پھٹی‘‘پر بیٹھے، اسپیڈ اتنی تھی کہ حلفیہ آپ کو کہہ رہے ہیں کہ ۔۔گدھا گاڑی ہماری بائیک سے آگے نکل گئی۔اس دن ہم نے توبہ کرلی اور اگلے دن پھر سے بس میں جانا شروع کردیا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔انگریزوں کے دورمیں دسمبر میں اسکولوں میں کرسمس کی چھٹیاں دی جاتی تھیں، انگریز چلے گئے، تہتر سال بعد بھی ہم کرسمس کی چھٹیوں کو سردیوں کی چھٹیاں کہہ کر انہی دنوں میں چھٹیاں دیتے ہیں،جب کہ شدید سردی اب دسمبر میں نہیں جنوری میں پڑتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔