خوشحالی کا راستہ تلاش کیجیے!

 خوشحالی کا راستہ تلاش کیجیے!

 حکمران کوئی بھی ہو عوامی مفاد کو بہت کم پیش نظر رکھتا ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہو تو وہ بتا رہا ہوتا ہے یہ تو پوری دنیا میں ہے پھر یہ تو ماضی کی نسبت زیادہ نہیں ہے لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ عوام بھی بھولے ہوتے ہیں وہ مان جاتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو کوئی بات نہیں مگر اب جب پون صدی بیت چکی ہے اور حکمران طبقہ کے بیانات ایک ہی طرح کے انہیں سننے کو مل رہے ہیں تو وہ مایوس و بدگمان نظر آتے ہیں۔ 
دراصل ہمارے ہاں کی حکومتیں آزاد نہیں ہوتیں ان کے ہاتھ پاؤں شرائط کی ڈوری سے بندھے ہوتے ہیں انہیں جو آشیر بادیوں کا حکم ہوتا ہے اس پر وہ عمل درآمد کرتے ہیں لہٰذا عوام بے چارے ایک برس دو برس تک تو ان سے امید باندھے رکھتے ہیں کہ انہیں ضرور کچھ سہولتیں دی جائیں گی ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ پورے کیے جائیں گے مگر تیسرے برس کے آغاز میں جب ان کی خواہشات کے مطابق کچھ بھی نہیں ہوتا تو پریشانی انہیں آن گھیرتی ہے پھر حکمران یہ دیکھ کر انہیں طفل تسلیاں دینے لگتے ہیں کہ بس مشکل مرحلہ گزر گیا۔ انہیں پچھلے دور کی خرابیوں کو ٹھیک کرنا تھا جس کے لیے کچھ وقت درکار تھا لہٰذا آنے والے دنوں میں وہ دیکھیں گے کہ ہر طرف ہرا ہی ہرا ہے۔ وہ (عوام) ایک بار پھر کسی آس کے سہارے شاہراہ حیات پر چل پڑتے ہیں مگر اب بھی وہ ہرا دیکھنے سے محروم ہوتے ہیں۔ 
یہ عرض کرنے کا مقصد یہاں کہ ہر حکومت نے عوام کو باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت بیوقوف بنایا ان کے جذبات سے کھیلا گیا انہیں خوشحالیوں کے نغمے گا کر اپنے پیچھے لگایا گیا مگر ان کو انصاف فراہم کیا گیا نہ ان کے مطالبات تسلیم کیے گئے۔ ان کی صدائے احتجاج کو کار سرکار میں مداخلت قرار دے دیا کیا اور اس پر ان کو قانون کے شکنجے میں کسنے کی کوششیں کی گئیں۔ ان کے اس طرز عمل سے یہ ثابت ہوا کہ وہ صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے آتے رہے ہیں انہیں غریب عوام کی بالکل کوئی فکر نہیں ہوتی اور اگر فکر ہوتی تو آج جن مسائل سے انہیں دو چار ہونا پڑ رہا ہے وہ نہ ہوتے۔ 
بہرحال اب تو کسی سے بھی کوئی امید نہیں رہی کیونکہ ملکی سیاسی و معاشی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے جسے ٹھیک کرنے کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے جو اشرافیہ کبھی بھی نہیں لائے گی یا لانے دے گی یہ کام عوام کو آگے آکر خود کرنا ہو گا وہ ان حکمرانوں کو دیکھ اور پرکھ چکے ہیں انہوں نے سوائے وعدوں اور دعوؤں کے اور کچھ نہیں دیا۔ اب جبکہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تر ہے یا دیوالیہ ہو چکا ہے تو 
بھی یہ نہیں جاگ رہے اور یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہمارے وزیر خزانہ جو پیوند کاری کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں مصنوعی طور سے صورتحال پر قابو پانے کے جتن کر رہے ہیں مگر اس میں وہ کامیاب نہیں ہو پا رہے کیونکہ بحران بڑا شدید ہے جس پر قابو پانے کے لیے سب کو مل بیٹھنا ہو گا۔ اس کے ساتھ جو قومی دولت لوٹی جا چکی ہے اس کا حساب کتاب لازمی کرنا ہوگا اور ایسا کوئی بھی نہیں چاہتا لہٰذا حالات روز بروز مزید خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس پر ہمیں گہری تشویش ہے کہ آنے والے دن کہیں ہم سے ایک وقت کی روٹی ہی نہ چھین لیں۔ جو لوگ دیہاڑی دار ہیں وہ تو بہت ہی پریشان ہیں انہیں کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں ملتا۔ سرکاری ملازم بھی خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کی تنخواہیں قلیل ہیں وہ تو چھوٹا موٹا کوئی کام بھی نہیں کر سکتے۔ اْدھر پنشنرز کی بھی پریشانی بڑھ رہی ہے۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کی بولی بول رہے ہیں کہ کسی طرح پنشن کو ختم کر دیا جائے تنخواہوں میں جو میڈیکل الاؤنس ہے اسے بھی ختم کیا جانا چاہیے اس کی جگہ ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ایلو پیتھک طریقہ علاج نہیں کرانا چاہتا دوسرا کوئی طریقہ علاج کرانا چاہتا ہے تو جاری کردہ کارڈ سے وہ علاج کرایا جا سکے گا۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہو گا کیونکہ حکمرانوں کے نزدیک ایلو پیتھک طریقہ علاج ہی سے استفادہ کرنا چاہیے جو کہ امراض اور تکالیف کو ختم نہیں کرتا ان کی شدت میں معمولی کمی ضرور کرتا ہے مگر کئی طرح کی پیچیدگیاں بھی پیدا کرتا ہے اور کامل شفا دینے سے قاصر ہے۔ لہٰذا وزیر خزانہ آئی ایم ایف والوں کو بتائیں کہ ہمارے ہاں کا کلچر مختلف ہے اس کے تناظر میں لوگ اپنا علاج کراتے ہیں مگر وہ نہیں کہیں گے کیونکہ انہیں تو ان کی ہر بات کو من و عن ماننا ہے عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ عوام کو نہ کسی سیاستدان نے اور نہ ہی کسی آمر نے کوئی اہمیت دی ہے لہٰذا زندگی ایک بار پھر مشکلات کے بھنور میں گھرنے جا رہی ہے۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور اجتماعی اضطراب میں اضافہ ہونے والا ہے۔ اس تناظر میں ہماری خواہش ہے اور التجا بھی کہ تمام سیاسی جماعتیں اگر ان کے دل میں ذرا سا بھی عوام کا درد ہے تو وہ مل بیٹھیں انہوں نے جو عوامی سرمایے کو اپنی تجوریوں میں منتقل کیا ہے اس کے بارے بعد میں سوچ لیں پہلے در پیش صورتحال کا مقابلہ کریں اور کوئی راستہ نکالیں اس معاشی بحران سے نکلنے کا۔ انہیں آئی ایم ایف سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں اگر وہ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو آئی ایم ایف کو اپنی شرائط میں تبدیلی لانا پڑے گی اور اگر آئی ایم ایف ہی کو سر پر چرھائے رکھتی ہیں تو پھر وہ کسی صورت عوام کے لیے کچھ نہیں کر پائیں گی کیونکہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ عوامی مفاد سے کوسوں دور نظر آتا ہے اسے اپنی قسطیں وصول کرنا ہیں چاہے عوام اپنے اعضا بیچیں یا گھر کے برتن‘ اسے اس سے کوئی غرض نہیں لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ مل بیٹھ کر درست سمت کا سفر اختیار کیا جائے۔ پچھہتر برس معمولی عرصہ نہیں ہمیں تو بہت آگے جانا چاہیے تھا مگر ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہے۔ اس وقت بھی جو کچھ ہو رہا ہے کہ وہ آئے یہ نہ رہے۔ بس کرو اب! بہت ستم اٹھا لیے عوام نے‘ ان پر تر س کھاؤ یہ بھی انسان ہیں ان کے بھی کچھ خواب ہیں ان کی بھی خواہشیں ہیں انہیں بھی جینا ہے انہیں بھی سستا انصاف چاہیے ، تعلیم اور صحت کی سہولت ملے مگر افسوس آئی ایم ایف کے کہنے پر ان پر ٹیکسوں کے انبار لگائے جا رہے ہیں پہلے سے میسر تھوڑی بہت سہولتیں بھی واپس لی جا رہی ہیں۔ کیا یہ ملک عوام کا ہے یا آئی ایم ایف کا؟ اقتدار کے کھیل کو اب ختم کر دیں اور وہ راستہ تلاش کریں جس پر چل کہ ہم نے مہکتی وادیوں میں داخل ہونا ہے ایک نئے سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھنا ہے!