پتھر کا دل

Khalid Mahmood Faisal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

یوم کشمیر مناتے ہوئے آپ اُس باپ کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں جو دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں بستر پر دراز آٹھ سالہ بیٹے کوبہلانے اسکا دھیان ہٹانے اور آنکھوں کے بغیر زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لئے اپنے بچے کوصبر کی تلقین کر رہاہو، جسکی باتیں سن کر پتھر دل انسان بھی رونے پر مجبور ہوجائے، یہ بچہ وادی کا بدنصیب شہری ہے، سکیورٹی فورسز نے پلٹ گن سے اِسکی آنکھوں کی بینائی چھین لی تھی، اس ہسپتال کا یہ اکیلا مریض نہ تھا،ان میں سوپور کا ایک ڈرائیور خاندان کا واحد کفیل بھی شامل تھاجسکی بینائی بھی پیلٹ گن کی گولیوں نے چھین لی تھی،روایت ہے کہ جب گانگریس کے راہنما راہول گاندھی نے اس ہسپتال کا دورہ کیا تو اس ڈرائیور نے اسے بتایا کہ مجھ سمیت سیکڑوں مریض اس کرب میں مبتلا ہیںمگر میری بینائی سے محرومی اگربھارت کے سیاسی راہنمائوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔اس متاثرہ نوجوان کے سوال پر کانگریسی لیڈر گردن جھکا کر چلے گئے۔
بھارت کے ماہر امراض چشم کہتے ہیں اس طرح کے کیسوں کے ساتھ پہلی بار واسطہ پڑا ہے،دنیا کے جنگ زدہ خطہ میں بھی اس طرح کے مریض دیکھنے کو نہیں ملے۔ اس سے بھی کرب ناک داستان شاہ نگرگائوں کے حسن کمار کی ہے،جسکی بوڑھی ماں اور بیوی کا سکیورٹی فورسز نے جینا دو بھر کر دیا ، کیونکہ ان کے گھر میں کوئی مرد نہ تھا وہ سب فورسز کی قید میں تشدد زدہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ان کا جرم ہر کشمیری کی طرح حق خود ارادیت کا مطالبہ تھا، حسن کمار کی دس سالہ اکلوتی آنکھوں سے معذور بیٹی تھی، اسکی بیوی کا پائوں بھاری تھا، اِنکے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ یہ خاندان ہجرت کر جاتا، خوف کی اس فضا میں مردوں کے بغیر یہ روز جیتے اور مرتے تھے، ایک رات سرکاری بندوق داروں نے ان کے گھر پر دستک دی جونہی خاتون خانہ نے دروازہ کھولا اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی، اس کے جسم پر اتنی گولیاں لگیں کہ اس کے بطن میں بچے کی ٹانگ اور جسم کے ٹکڑے ہو کر باہر بکھر گئے،اگلے روز اس کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہ تھی، بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنے ہاتھوں سے ماں کی قبر پر مٹی ڈالی،حسن کمار کی بوڑھی ماں اپنی پوتی کو لے کر گائوں سے بے بسی کی تصویر بن کر اسے چھوڑنے پر مجبور ہوئی تو کسی میں انھیں روکنے اور ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، اس گھرانہ پر الزام تھا کہ انکا تعلق حزب المجاہدین سے ہے۔
مقبوضہ کشمیر ہی کے ۳۷ سالہ عربی استاد کی المناک کہانی کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزسری نگر کی آرکایئو ز کو کھنگالنے سے ملتی ہے جس کو ترال سے گرفتار کیا گیا،جب اسکو ہسپتال لایا گیا تو یہ بیچارہ قوم کا استاد ظلم جبر اور فورسز کے ہاتھوں تشدد سے Rhabdomylosis جیسی خوفناک بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا،جس کے نتیجہ میں اعصاب تیزی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں سارا مدافعتی نظام مائع کی صورت میں تحلیل ہو کر پیشاب کے راستے باہر آرہا تھا۔
ظلم کی یہ داستانیں بھارتی فورسز نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے سے پہلے رقم کی ہیں، تاہم یہ سلسلہ نوّے کی دہائی سے ہی شروع ہو چکا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ روایت تھی کہ کوئی بھی کشمیری جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا ،اس کا ایک حصہ راستے پر قائم ملٹری کیمپوں میں لازمی جمع کراتا تھا، راوی کے مطابق یہ اس عہد کی بات ہے جب 
فاروق عبداللہ کی نام نہاد حکومت تھی،ایک کشمیری غلام احمد وانی نے جو مقامی ممبر اسمبلی کا رشتہ دار تھا ،اس نے ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقہ میں اس طرح جنگل سے لکڑیاں کاٹی لیکن ممبر کی رشتہ داری کے زعم میں ملٹری کیمپ میں مقدار سے کم لکڑیاں دیں جس پر وہاں سکیورٹی گارڈ سے اس کی تکرار ہو گئی وہ یہ بھول گیا کہ کٹھ پتلی حکومت بھارتی وفاداری کے لئے ہے کشمیروں کے تحفظ کے لئے نہیں بنی، ملٹری گارڈ نے مورچے سے باہر نکل کر اپنی بندوق اس ممبر اسمبلی کے رشتہ دار کے سینے کی طرف موڑ کر گولی چلا دی، وانی کے سینے کا گرم گرم خون سڑک کو رنگین کر گیا یہ سارا منظر سکول کے بچوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس میں ان کے لئے بھی پیغام تھا۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ہمنوا حکومت کی محبوبہ مفتی نے2019 اگست میں آخر تسلیم کیا بھارت سے دوستی غلط فیصلہ تھا۔
کشمیر کی موجودہ صورت حال پر معروف بھارتی جریدہ ’’فورس‘‘ کی غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ کشمیر ایک بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے اس کے باشندے سمجھتے ہیں کہ وہ  اس جیل کے قیدی ہیں۔ عالمی راہنمائوں کی خاموشی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ورثا انصاف مانگنے اور ظالموں کو سزا دینے کے بجائے خود اپنے ہاتھوں سے شہدا کی تدفین کا مطالبہ کرتے ہیں۔حریت کی علامت اور آزادی کا استعمارہ، پاکستان کے ساتھ الحاق  کے داعی سید علی گیلانی شہید کی موت سے بھی خوف زدہ سکیورٹی فورسز نے انکے لواحقین کی مرضی کے خلاف انکی تدفین کر کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے، اس کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر مظاہروں نے یہ تسلیم کرا دیا ہے کہ اس وادی میں خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ٹونٹی ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستان ٹیم کی فتح بھارت کی شکست پر آگرہ انجینئرنگ کالج اور سری نگر کے کشمیری طلباء پر دہشت گردی کے مقدمات کا اندراج بھارتی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے،پاک ٹیم کی کامیاب پر معمولی خوشی کا اظہار بھی انھیں گوارا نہیں۔
شہدا کے جنازوں پر پاک پرچم کا لہرانا قائد اعظم ؒ کے اس موقف کی تائید ہے، کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اپنے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش سے زیارت میں کہا کہ کشمیر سیاسی، فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے،کوئی خود دار ملک ،قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کر دے،اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم ،ملک نظر انداز نہیں کر سکتا، کشمیرثقافتی، تہذیبی، مذہبی، معاشرتی،سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ ہے جب بھی جس زاویہ سے بھی اس کے نقشہ پر نظر ڈالی جائے یہ حقیقت اتنی واضح ہوتی جائے گی۔
ابدی نیند سونے والی اس ہستی کو کون بتائے کہ ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غاصب انڈیا نے کشمیر کی آئینی حیثیت ہی بدل دی ہے ۔ ہم صرف اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وطن کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔قائد کے فرمودات سے جس طرح ہم نے بے وفائی کی کوئی غیرت مند قوم ایسا سوچ بھی نہیں سکتی، کیا اہل کشمیر پر ہونے والے مظالم سے ہم خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ جبکہ ہم ایک ایٹمی قوت اور منظم فوج رکھتے ہوں، بینائی سے محروم معصوم بچوں کی بے بسی نجانے ہماری آنکھیں کب کھولے گی،انکا جرم اتنا ہے کہ وہ ہماری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
 مقبوضہ کشمیر دنیا میں ایک واحد خطہ ہے جو آئین اور قانون کی عمل داری سے بالکل آزاد ہے۔ اہل کشمیر نے گذشتہ تین عشروں میں ایسے المناک مناظر دیکھے ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے پتھر کا دل چاہئے۔ دکھائی یوں دیتا ہے کہ عالمی راہنمائوں کا پتھردل ظالم بھارتی فورسز سے بھی زیادہ بڑا ہے۔

مصنف کے بارے میں