پاکستانی سیاست ہمیشہ ناقابل فہم ہوتی ہے

پاکستانی سیاست ہمیشہ ناقابل فہم ہوتی ہے

 پاکستانی سیاست کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا یہاں ایسی ایسی روایات قائم کی جا چکی میں جو طاقت کی ہوس میں فراعین مصر کو پیچھے چھوڑ جاتی میں دیکھنا یہ ہے کہ آج کی پاکستانی قوم جو اپنے گناہوں کی وجہ سے بنی اسرائیل کی طرح مبتلائے عذاب ہے کیسے اس سے چھٹکارا حاصل کرتی ہے یاد رہے کہ بنی اسرائیل نے جب خدا کے پیغام سے روگردانی کی تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان پر ظالم حکمران مسلط کر دیئے تھے۔ قوموں پر ان کی بداعمالیوں کے سبب آنے والے عذاب تاریخ کے ہر دور کا حصہ رہے ہیں جیسے آج ہمارا دور دورہ ہے۔
گزشتہ سال مارچ میں جب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو پی ڈی ایم کا موقف یہ تھا کہ ملک میں نئے انتخابات ہونے چاہئیں اگر اس وقت تحریک انصاف اقتدار سے چمٹے رہنے کی غلطی نہ کرتی اور اسمبلیاں توڑ کر ملک میں نئے انتخابات ہو جاتے تو شاید ملک کا اتنا نقصان نہ ہوتا لیکن عمران خان کی آخری بال تک کھیلنے کی خواہش انہیں لے ڈوبی اور جب انہیں شکست ہوگئی تو اس وقت عدم اعتماد کا راستہ روک کر غیر آئینی حکم کے ذریعے قومی اسمبلی کی تحلیل اور نئے انتخابات کی کوشش کی گئی مگر ڈوبتے ہوئے دشمن کی بات کون سنتا ہے اس کے بعد اقتدار پی ڈی ایم کے ہاتھ لگ گیا وہ دن ہے اور آج کا دن تقریباً ایک سال ہونے کو ہے حرام سے جو ملک سے وفاداری کیلئے ایک ٹکے کا کام بھی کیا گیا ہو حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو ذلت و رسوائی میں دھکیلنے میں مصروف ہیں اور دونوں کو ہی اس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے مگر اس میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور غریب عوام کا ہوا ہے۔ حکمران یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر ملک نہیں رہے گا تو لوٹ مار کہاں کریں گے۔
ماضی کی ساری مہنگائیاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اس وقت ہوتا یہ تھا کہ ملک میں افراط زر کی شرح اوسطاً 10 فیصد تھی یعنی ایک سال میں 100 روپے والی چیز 110 کی ہو جاتی تھی تو ملک میں شور مچ جاتا تھا کے اس قدر مہنگائی ہے اس وقت حالت یہ ہے کہ افراط ازر یعنی مہنگائی کی شرح 27.5 فیصد ہے جس میں ہر سال نہیں ہر مہینے اضافہ ہو رہا ہے۔ 5 یا 6 وزیر خزانہ پچھلی حکومت نے بدلے تھے اور ایک سال میں 2وزیر خزانہ ن لیگ بھی آزما چکی ہے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ 
2018ء سے لے کر اب تک ان سب سیاسی سٹیک ہولڈرز نے ملک کے ساتھ کیا کچھ کر دیا مگر کیا مجال ہے کہ کسی کے ضمیر نے ہلکی سی بھی کروٹ لی ہو۔ وہ اب بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اس وقت جب ملک کی معیشت کو بقاکا مسئلہ درپیش ہے تو سب حصہ دار اور  ٹھیکیدار سیاست چھوڑ کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے مگر انہوں نے تاریخ سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ عمران خان 4 سال تک یہ کہتے رہے کہ وہ طالبان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں مگر سیاسی مخالفین سے نہیں۔ 
ویسے تو آئی ایم ایف کی پاکستان کا معاشی انتظام سنبھالنے کی بات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان کی مائیکرو لیول پر مداخلت اب ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے انہوں نے ایک اچھی بات یہ کی ہے کہ یہ شرط بھی رکھ دی کہ ملک کی بیورو کریسی کے اثاثے پبلک کئے جائیں ابھی تک یہ کلیئر نہیں ہے کہ یہ شرط صرف سول بیورو کریسی کے لیے ہے یا ملٹری بیورو کریسی بھی شامل ہے یا نہیں۔اسی اثنا میں ن لیگ کے سینئر وائس پریذیڈنٹ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباس کے اپنے عہدے سے استعفیٰ کی خبر آتی ہے اب اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ بہر حال ان کا استعفیٰ ن لیگ کے اندر موروثی سیاست کے خلاف ہے وہ اپنے الفاظ کے ذریعے اس کی جتنی مرضی تاویل کریں مگر پارٹی نے انہیں نظر انداز کر کے ان کی جگہ مریم نواز کے ذریعے پر کرلی ہے اگلے الیکشن تک تو یہ ایسے ہی چلے گا مگر خدشہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی ن لیگ کے بطن سے ایک اور ق لیگ کے نئے جنم کی وجہ نہ بن جائیں۔ 
عمران خان کی سیاست سے نا اہلی کیلئے ایک اور درخواست سماعت کیلئے منظور ہوگئی ہے جس میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنی بیٹی ٹیریان وائٹ کا نام چھپایا اس پر ہائی کورٹ بینچ تشکیل دیا جا رہا ہے، اگر عمران خان کو سیاست سے نااہل قرار دیا گیا تو عوام اس کو قبول نہیں کرے گی باوجود اس بات کے کہ اس وقت تاریخ میں پاکستان کو سب ہے زیادہ مقروض کرنے میں ان کا ہاتھ ہے ان کے دور میں سب سے زیادہ قرضہ لیا گیا۔ آخر میں میاں نواز شریف کی سیاست کی بات ہو جائے ان کی پارٹی کی حکومت گزشتہ تقریباً ایک سال سے قائم ہے مگر وہ ابھی تک پاکستان واپسی سے گریزاں ہیں جس میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں وجوہات شامل ہیں تیسری وجہ پارٹی کی اندرونی خلفشار بھی ہے بہت سے معاملات ان کی مرضی کے بر خلاف ہوئے ہیں کیو نکہ اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن اس وقت کی صورتحال میں اگر وہ خود پاکستانی نہ آئے تو ن لیگ کی سیاست خاصی مجروح ہوگی اور پارٹی کا الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا اور اگر ن لیگ پنجاب سے الیکشن ہار گئی تو ان کی سیاست ڈوب جائے گی بلوچستان اور سندھ میں پہلے ہی پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ KPK میں بھی ایک عرصے سے پارٹی اقتدار سے باہر ہے صرف ن لیگ کے پاس پنجاب سے اور اگر وہ بھی چھن گیا تو پارٹی میں موروثی جانشینی کا تصور نا کام ہو جائے گا۔