بیٹری لو…

بیٹری لو…

دوستو،ایک خان صاحب نے نیا نیا موبائل فون خریدا، اگلے ہی روزموبائل فون والے پاس جاکر فون کی بیٹری خریدی، پھر اگلے دن موبائل کی بیٹری لی۔۔یہ سلسلہ پانچ دن تک مسلسل چلتا رہا۔دکاندار نے ایک دن خان صاحب سے پوچھ ہی لیا،خان صاحب خیریت تو ہے، روزانہ ایک نئی موبائل بیٹری خریدتے ہو؟ خان صاحب نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔ تمارے سے جو موبائل فون ام نے خریدی تھی، اس میں روزانہ لکھاہوا آتی ہے۔۔بیٹری لو، بیٹری لو۔۔۔ ام اسی لئے نئی بیٹری خریدتی اتنا قیماتی فون خریدا ہے اگر بیٹری نہیں لیتی تو وہ خراب ہو جاتی۔۔ دکاندار سارا معاملہ سمجھ گیا۔۔ پھر خان صاحب سے موبائل فون لیا اور انہیں سمجھایاکہ اب وہ جوبیٹری دے رہا ہے، اسے بدلنے کی ضرورت نہیں۔۔جب بھی ’’بیٹری لو‘‘ کا میسیج آجائے تو اسے چارجنگ پر لگا دینا۔۔۔ اسی طرح صبح چھ بجے شوہر نے بیوی کو ’’چماٹ‘‘ مار کر اٹھاتے ہوئے غصیلے لہجے میں پوچھا۔۔یہ صبح صبح کون تمہیں’’بیوٹی فل‘‘ کا میسیج بھیج رہا ہے۔۔ بیگم نے حیرت سے پہلے شوہر کو دیکھا پھر آنکھیں مسلتے ہوئے اپنے موبائل کی جانب نظریں دوڑائیں اور شوہر کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔ابے او عقل کے اندھے، یہ بیوٹی فل نہیں۔۔بیٹری فل کا میسیج لکھا آرہا ہے۔۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ۔۔آج بیٹری کا تذکرہ کیوں ہونے لگا۔۔ اصل میں ہوا کچھ یوں کہ کراچی میں اچانک سردی میں اضافہ ہوگیا ہے اور آج کل میں بارش کی بھی پیش گوئی ہے۔موسم ٹھنڈاٹھار ہو اوپر سے پھوار ہو۔۔پھر تو ہماری بیٹری ازخود نوٹس لے کر ڈاؤن ہوجاتی ہے۔۔ لیکن اس کے باوجود تازہ گیلپ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 65فیصد پاکستانی تمام معاشی مشکلات اور کورونا کی وباء کے باوجود اپنی زندگی سے خوش ہیں۔ پاکستانیوں کے زندگی سے خوش ہونے کی شرح عالمی اوسط یعنی 57 فیصد اور علاقائی اوسط یعنی 55 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں سب سے زیادہ خوش افراد خیبرپختونخوا میں 73فیصد نظر آئے۔گیلپ سروے میں اکتالیس ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔۔سروے میں 23 فیصد نے ناخوش ہونے کا بتایاجبکہ 12 فیصد نے درمیانہ موقف اختیار کیا۔گیلپ پاکستان نے 65 فیصد خوش پاکستانیوں میں سے 23فیصد ناراض پاکستانیوں کو نکال کر پاکستانیوں میں خوشی کا نیٹ اسکور 42 فیصد بتایا۔جو 2020 میں 40 فیصد تھا۔ ریسرچ کمپنی کے مطابق پاکستانیوں میں خوشی کا نیٹ اسکور پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں یعنی 2016 میں 71 فیصد کی بلند ترین سطح پر دیکھا گیا۔2017میں یہ کم ہوکر 48 فیصد ہوگیا۔ 2019 میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ 65 فیصد پر نظر آیا لیکن 2020 میں خوشی کا نیٹ اسکور 40 فیصد پر دیکھا گیا۔جبکہ 2021میں اس میں 2 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 42 فیصد ہوگیا ہے۔خوش ہونے والے پاکستانیوں کو صنفی بنیادوں پر دیکھاجائے تو مردوں میں 66 فیصد جبکہ خواتین میں 60فیصد نے خوش ہونے کا کہا۔عمر کے لحاظ سے دیکھاجائے تو 30 سال کے اندر 69 فیصد پاکستانیوں نے خوش ہونے کا کہا، 30سے50 سال کے 64 فیصدجبکہ 50سال کے 59 فیصد افراد نے زندگی سے خوش ہونے کا کہا۔ اس سروے کے نتائج دیکھ کر ہمیں ایک پھٹا پرانا لطیفہ یاد آگیا،جو کچھ یوں ہے کہ۔۔ دوزخ میں ایک مقام پر تمام لوگ ایسے خوش نظر آرہے تھے جیسے کہ دوزخ ان کے لئے کوئی چیز نہیں، سیکورٹی پر مامور فرشتے نے پوچھا، تم لوگ یہاں بھی انجوائے کررہے ہو؟؟ وہ کہنے لگے، ہم پاکستانی ہیں، اس سے زیادہ تکالیف تو ہم دنیا میں برداشت کرتے رہے ہیں۔۔
سردیوں میں اکثر ہمارے ساتھ تو یہ ہوتا ہی ہے شایدآپ کے ساتھ بھی ہو ۔۔کچھ لوگ صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد خود کو تھکے تھکے سے محسوس کرتے ہیں، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ایک امریکن سلیپ  ایکسپرٹ نے کچھ ایسی تدابیر بتا ئی ہیں کہ جن سے صبح کی اس تھکاوٹ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ آپ کو الارم کی گھنٹی کی بجائے قدرتی روشنی کے ساتھ بیدار ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ’سن شائن الارم‘ بہترین چیز ہے۔ جب آپ سورج کی روشنی کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں تو آپ کا جسم کرسٹل جیسے ہارمونز پیدا کرتا ہے اور آپ کا دماغ چاک و چوبند ہو جاتا ہے۔ سن شائن الارم گھنٹی کی بجائے سورج کی روشنی سے مشابہہ روشنی خارج کرتا ہے، لہٰذا اس کا استعمال نیند سے بیداری کے وقت ہونے والی سستی اور تھکاوٹ سے نجات میں مدد دے سکتا ہے۔ اگر آپ صبح اٹھتے ہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ای میلز جیسے کام کرتے ہیں جو دماغ کو فوری طور پر متحرک کر دیتے ہیں، تو ان سے گریز کیجیے۔ بیدار ہوتے ہی دماغ کو فوراً متحرک کر دینے والا کوئی بھی کام کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ کو نیند کے بعد کام شروع کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے اور یہ ایک پراسیس سے گزر کر کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اگر ہم اسے فوری طور پر متحرک کر دیتے ہیں تو سستی اور تھکاوٹ لازمی ہوتی ہے۔ رات کو سونے کی تیاری نہ کرنا بھی صبح سستی اور تھکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ سونے کی تیاری میں سب سے اہم دو باتیں ہیں۔ اول سونے سے 6گھنٹے قبل کیفین کی حامل اشیالینا بند کر دیں اور سونے سے ایک گھنٹہ قبل موبائل فون اور دیگر ہر طرح کی اسکرین دیکھنا بند کر دیں۔ یہ دونوں عوامل نیند کے معیار پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جس کا نتیجہ صبح بیداری کے وقت سستی اور تھکاوٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر یہ سستی اور تھکاوٹ زیادہ شدید ہو تو خطرناک بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ جسم میں وٹامن ڈی یا آئرن کی کمی، ڈپریشن، ذہنی تناؤ، ناقص خوراک، ورزش کے فقدان وغیرہ کی علامت بھی ہوتی ہے۔
سردی کے موسم میں نزلہ وزکام کی شکایت عام ہو جاتی ہے۔ چونکہ اس کی علامات بھی کورونا وائرس کی علامات سے ملتی جلتی ہیں لہٰذا لوگ اس حوالے سے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ کہیں کورونا وائرس میں مبتلا تو نہیں ہو گئے۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ نزلہ زکام اور فلو وغیرہ کی ابتدائی علامات کورونا وائرس کی علامات کے مشابہہ ہوتی ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں بخار ہوتا ہے، جسم درد، تھکاوٹ اور گلے میں دکھن ہوتی ہے۔ سانس میں بھی دشواری ہوتی ہے اور قے وغیرہ بھی آسکتی ہے۔ تاہم اگر ان علامات کے ساتھ آپ کو شدید سردرد ہو رہا ہے اور تیز خشک کھانسی آ رہی ہے تو یہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس کی علامات ہو سکتی ہیں۔اور اگر آپ کی ذائقے اور سونگھنے کی حسیں ختم ہو گئی ہیں تو پھر یہ یقینی طور پر کورونا وائرس کی علامات ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو سرمیں اور سینے میں شدید درد ہے اور خشک کھانسی آ رہی ہے اور وقت کے ساتھ ان میں شدت آ رہی ہے تو آپ کو کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو کورونا وائرس کی ویکسین لازمی لگوانی چاہیے کیونکہ جن لوگوں نے ویکسین لگوا رکھی ہے انہیں کورونا وائرس کی نئی قسم لاحق ہونے کی صورت میں ان میں علامات زیادہ شدید ہونا کا خطرہ بہت کم ہے۔ ایسے لوگوں کے ہسپتال تک پہنچنے کی شرح بہت کم ہے اور یہ بہت جلد صحت مند ہو جاتے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نئے سال کی بس اتنی کہانی ہے، کیلنڈر نیا ہے زندگی پرانی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں