کرپشن پر سزائے موت کا قانون

کرپشن پر سزائے موت کا قانون

انگریز کے غلامانہ ساہوکاری نظام سے نجات پانے کیلئے پاکستان کے نام سے حاصل کئے گئے وطن میں بے بس و مجبور انسانوں کے دکھ مزید بڑھے ہیں اور ان کا پرامن اور خوشحال زندگی گزارنے کا خواب آج ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کیلئے ہماری سیاسی قیادت نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ کب ہمارے ساتھ کے ممالک زندگی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گئے؟ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں ہونے لگا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور سوچیں کہ چین، سنگاپور، جنوبی کوریا کیسے ترقی کر گئے؟ ان ممالک اور پاکستان میں کیا فرق ہے۔ کیا ہم نے کبھی بیٹھ کر غور کیا ہے کہ ان کی ترقی کا کیا راز ہے؟سنگا پور کی ترقی کی داستان ایک خیالی تصور لگتا ہے۔ لیکن اس قوم نے خیال کو کیسے حقیقت میں ڈھالا ہے۔ یہ ہمت، جرأت اور پختہ عزم کی عجیب کہانی ہے۔ سنگا پور جیسا بیابان، دلدلی اور بنجر زمین والا ملک کیسے دنیا کا ترقی یافتہ ملک بنا ہے؟ انیس سوپینسٹھ تک سنگا پور دنیا کا پسماندہ ترین ملک تھا۔ عوام کے پاس کوئی مقصدیت نہ تھی۔ لوگ بے کار اور نالائق تھے۔ یہ لوگ صرف بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے۔ زیادہ تر افراد چوری چکاریاں کرتے تھے۔ پورا ملائیشیا ان سے تنگ تھا۔ جب تونکو عبدالرحمان کے دور میں سنگا پور نے آزادی مانگی تو ملائیشین پارلیمنٹ کے تمام ارکان نے سنگا پور کے حق میں ووٹ دیا۔ ملائیشیا کی پارلیمان کا کہنا تھا کہ یہ بے کار لوگ اور بے کار زمین ہم اپنے پاس رکھ کر کیا کریں گے۔ یہ سنگا پور کی ترقی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ انھیں قدرت کی طرف سے ملائیشیا سے آزادی کا تحفہ ملا۔ سنگا پور پر دوسری رحمت لی کو آن یو کی صورت میں ہوئی۔ لی کوآن سنگا پور کے وزیر اعظم بنے۔ اس شخص نے ان بنجر زمینوں اور کم نصیبوں کی تقدیر بدل دی۔ صرف 20 برس میں یہ چھوٹی سی ریاست دنیا کی کامیاب ترین ریاست بن گئی ہے۔بد امنی، بے روزگاری، بدحالی اور جہالت کو خوشحالی، روزگار، سرمایہ اور شاندار مستقبل میں بدل دیا۔ سنگاپور آج کے جدید دور میں اقوام عالم کے لئے رہنما ہے۔ سنگا پور نے دنیا کو بتا یا ہے کہ ترقی کے لئے وسائل سے زیادہ قوموں کی قوت ارادی ضروری ہے۔ لو کو آن نے دو ہائیوں میں اس ملک کی تقدیر کیسے بدلی؟ اس نے کچھ کام کئے۔سب پہلا کام کرپشن کو ختم کیا۔ اس کے لئے ایک انویسٹی گیشن بیورو بنایا جو کہ وزیر اعظم کے دفتر کے ماتحت تھا۔ کرپشن پر صرف سخت قانون ساز ی ہی نہیں کی گئی بلکہ معاشرے میں اس عمل کو سخت ناپسندیدہ بنا دیا۔ یہی وجہ تھی کرپشن کے 
الزام کے بعد لی کوآن کے کئی وزراء اور بیوروکریٹس کو خود کشی کرنا پڑی۔ حکومت اور ریاست چلانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے میرٹ میرٹ اور میرٹ۔ نااہل اور کرپٹ شخص کی سنگاپور کے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ لی کوآن نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کیا۔ سنگاپور میں کوئی شخص دوسرے کے مذہب پر سوال نہیں کر سکتا۔ مسلمان، عیسائی، سکھ، ہندو، بدھ مت آپ جو کوئی بھی ہیں آپ اپنی مذہبی معاملات میں آزاد ہیں۔ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ تیسرا اہم کام ملک سے کلاس کلچر ختم کر دیا۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ پورے ملک سے چن چن کر اہل اور ایماندار لوگ اہم ریاستی عہدوں پر تعینات کئے گئے۔ جو طویل عرصے سے اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔ سنگاپور کے لوگ جنون کی حد تک صفائی پسند ہیں۔ یہ خاصیت بھی قانون کی وجہ سے آئی۔ سڑک پر تھوکنے، سگریٹ پینے اور چیونگم کھانے پر پابندی ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو سیدھا جیل جاتا ہے۔ اس لئے آپ کو سنگا پور میں کوئی شخص سڑک پر تھوکتا، پان کھاتا، سگریٹ پیتا یا چیونگم چباتا نظر نہیں آئے گا۔ ملک میں چیونگم بین ہے۔ لی کوآن نے ان اقدامات کے ذریعے اپنے ملک میں قانون کی عملداری اور تہذیب پیدا کی۔ ملک کو دنیا بھر کے بزنس مینوں اور ہنر مندوں کے لئے کھول دیا۔ ایک شرط تھی کہ آپ کو کام آتا ہے اور آپ کے پاس سرمایہ ہو۔ آج تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایشین ریجنل ہیڈ آفس سنگاپور میں ہیں۔ یہ سب کرپشن کے خاتمے اور قانون کی عملداری سے ممکن ہوا ہے۔ جنوبی کوریا کی معیشت کے معمار پاکستان کے سابق وزیر خزانہ محبوب الحق ہیں۔ آج جنوبی کوریا کے لوگ پاکستان کو محبوب الحق کی وجہ سے جانتے ہیں۔ پاکستان سے پانچ سالہ منصوبوں کا فریم ورک لے کر جنوبی کوریا نے اپنی صنعتی اور سماجی ترقی کی بنیاد رکھی۔ جنوبی کوریا کے لوگ دنیا میں سب سے زیادہ محنتی اور ایماندار تصور کئے جاتے ہیں۔ کرپشن تو درکنا ر جھوٹ بولنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ قانون کی عملداری کا یہ عالم ہے کہ جنوبی کوریا میں کوئی شخص سگنل توڑنے کا بھی تصور تک نہیں کر سکتا۔ آج دنیا میں سام سنگ، ڈائیووو، کیِا، ہنڈائی جیسے برانڈز کا راج ہے۔ پاکستان کی چوتھا ئی آبادی رکھنے والا یہ ملک دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے۔ چین جسے نشئیوں کا ملک کہا جاتاتھا۔ ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی قیادت نے ان افیونچیوں کو دنیا کی سب بڑی معیشت بنا دیا ہے۔ چین میں کرپشن پر سخت سزائیں ہیں۔ کرپٹ پریکٹس ثابت ہونے پر تمام جائیداد کی قرقی کے ساتھ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے چین میں عا م آدمی کے لئے کرپشن کا تصور بھی ناممکن ہے۔ یہ وہ کام تھا جس نے دنیا بھر سے سرمایہ کاری کا ماحو ل بنایا۔ چین نے دنیا بھر سے سرمایہ کاری کے لئے خصوصی زون بنائے۔دنیا کی سب سے سستی لیبر فراہم کی۔ اس طرح دنیا کے جدید ممالک کی ٹیکنالوجی کو اپنے ملک میں منتقل کیا اور اپنے لوگوں کو ہنر مند بنا لیا۔ آج پوری دنیا میں چینی معیشت کا راج ہے۔ ان سارے ممالک کی ترقی کی جڑ میں ایک بات کامن ہے۔ سب سے پہلے ان ممالک میں کرپشن کو سب بڑا جرم مانا گیا۔ سخت سزاؤں پر بلاتفریق عملدرآمد کیا گیا۔ دوسرا تمام اداروں کا میرٹ ایمانداری بنایا گیا۔ کسی بھی کرپٹ آدمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستا ن نے بھی ترقی کرنی ہے تو اسے ہر قسم کی کرپشن اور بے ایمانی سے پاک کرنا ہو گا۔ ترکی، ملائیشیا،دوبئی، سعودی عرب،مصر سب ہم سے گے نکل چکے ہیں۔ دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والا ملک جی ڈی پی کے اعتبار سے چالیسویں نمبر پر کیوں ہے؟ اس کی وجہ نااہل قیادتیں، کرپٹ بیورو کریسی، سست عدالتی نظام اور جمہوریت کا عدم تسلسل ہے۔ اس وقت کی ملک حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس ادائیگیوں کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ کنٹینر کھڑے ہیں اور سٹیٹ بنک کلیئرنس دینے کے قابل نہیں۔ لیکن اشرافیہ کی تجوریا ں بھری ہوئی ہیں۔ بیوروکریٹس، سیاستدان، بڑے بزنس مین،جنرلز اور ججوں کے یورپ اور امریکا میں گھر ہیں۔ بنک اکاؤنٹس ہیں۔ دوہری شہریت ہے۔ آج اگر یہ ملک ڈوب بھی جائے تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ فلائٹ پکڑ کر اپنے اصل مسکن کی جانب اڑ جائیں گے۔ ڈوبیں گے تو اس ملک کے عوام۔ ہماری سیاسی قیادتوں نے چوہتر برس میں محض اپنے اقتدار و مفادات کی سیاست کی ہے۔ جنہیں عوامی دکھوں میں کمی سے کوئی سروکار نہیں۔کرپشن کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی دفتر میں چلے جائیں رشوت دیئے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ ہم ایسی قوم ہیں جو جعلی آب زم زم تک بیچ دیتے ہیں۔ سوچیں بھارت آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہماری مذہبی جنونیت کا یہ عالم ہے کہ سڑکوں پر غیر مسلموں کی لاشیں گھسیٹتے ہیں۔ ہم اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ کرپٹ کو کرپٹ نہیں سمجھتے۔ آج دنیا ہمیں ایک بے کار قوم سمجھنے لگی ہے۔ اس ملک کو بدلنے کا ایک ہی راستہ۔ پوری سیاسی قیادت ایک نقطے پر جمع ہو۔ کرپشن کو سب سے بڑا جرم قرار دے۔ اگر جرم ثابت ہو تو اس پر سزائے موت کا قانون پاس کیا جائے۔ سیاسی قیادت کے ساتھ تمام فوجی قیادت اور بیوروکریسی کو بٹھائیں۔ اس ملک کو تیس سال کا معاشی پلان دیں۔ اس کے بعد جو بھی اس میں رکاوٹ بنے اسے الٹا لٹکا دیں۔ یہ ملک ایسے ہی ترقی کر سکتا ہے۔