افغانستان، طالبان اور رحمن ملک

Khalid Minhas, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 منیر نیازی نے ایک بار کہا تھا 
ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھ کو منیر
دریا کے اس پار اترا تو میں نے دیکھا
یہ کتنی بے بسی کا سامان تھا۔ کتنی لاچاری تھی اور پھر سے جدوجہد کرنے کا عزم۔ پاکستان بھی آج کل اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک مسئلے سے جان چھڑاؤ تو دوسرا مسئلہ سر پر ہوتا ہے۔ چین کی مانو تو امریکہ ناراض، امریکہ کی سنو تو چین ناراض۔ ایک اور افغانستان ہماری سرحد پر موجود ہے۔ امریکی بگرام سے دم دبا کر بھاگ لیے۔ افغانستان کا انتظام کیسے بہتر ہو گا اس بارے میں کوئی ٹھوس منصوبے کے بغیر یہ پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
بگرام ایئربیس کی فضا نے عجیب و غریب منظر دیکھے ہیں۔ امریکہ کا طمطراق پوری دنیا نے دیکھا۔ جیتے جاگتے افغانستان کو مٹی کے ملبے میں دبا دیا گیا، اپنی شرائط پر کئی ملکوں کو آگے لگا لیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا کر دنیا کو بے وقوف بنانے کا گر کوئی ان سے سیکھے۔ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں نے امریکی غرور کو ریزہ ریزہ کر دیا۔
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا
 برفانی ریچھ بھی بستیوں کو اجاڑنے کے لیے آیا تھا لیکن اسے اتنے کچوکے لگائے گئے کہ بالآخر وہ وہاں سے بھاگ لیا۔ اب دوسری بدمست طاقت اپنا سارا کچھ ہار کر واپس جا رہی ہے۔ چشم فلک نے کیا کیا نہیں دیکھا۔ افغانوں پر تو براہ راست جنگ مسلط تھی لیکن اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا۔ سوویت یونین کے دور کے مہاجرین واپس نہیں گئے تھے کہ امریکہ کی چیرہ دستیوں کا شکار افراد نے بھی اس طرف کا رخ کیا۔ کیا ان پر اپنی سرحدیں بند کر دی جاتیں، کیسے کرتے لٹے پٹے قافلے کہاں جاتے۔ ہم نے انہیں پناہ دی اور امریکہ نے دہشت گردوں کے تعاقب میں ہماری سرحدوں کو بھی پامال کیا۔ یہ جنگ صرف افغانوں پر مسلط نہیں ہوئی تھی ہم بھی اس کی زد میں تھے۔ مکے لہرا کر اپنی طاقت دکھانے والے کمانڈو نے ایک منٹ کے لیے بھی مزاحمت نہیں کی۔ 
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
مشرف دبئی کے ہسپتال میں لاچاری اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے اور امریکی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ طالبان کے خلاف ایک لمبی جنگ کرنے کے بعد انہی دہشت گردوں کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا۔ تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے۔ ہمیں تو اتنا مجبور کیا گیا کہ ہم نے افغانستان کے سفیر کو ایک مجرم کی طرح آپ کے حضور پیش کر دیا۔ بگرام نے کس کس کو نہیں دیکھا۔ سب کو وہاں لایا جاتا اور پھر انہیں گوانتانامو منتقل کر دیا جاتا۔ یہی مجرم جب بگرام ائیر بیس پر آئیں گے تو کیسا محسوس کریں گے۔ اس جنگ کا خراج کئی قوموں کو ادا کرنا پڑے گا۔
 اس جنگ پر امریکہ نے کئی ٹریلین ڈالر خرچ کیے۔ بارود اور خون ریزی کا کاروبار عروج پر پہنچایا۔ یہ پیسہ ان کی تعلیم اور صحت پر خرچ ہوتا تو ایک روشن خیال قوم پروان چڑھتی۔ ہم نے افغانوں کو ایک ان پڑھ اور اجڈ قوم ثابت کرنے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے مگر ان کے مثبت پہلوؤں کو تاریخ کے اوراق میں دفن کر دیا گیا۔ اب یہ سفر کہاں سے شروع کرنا ہے۔ کیا ہم نے اسی راستے پر چلنا ہے جو راستہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد اختیار کیا تھا یا اس بار کسی اور ڈھب سے آگے بڑھنا ہے۔ امریکہ نے فوجی اڈے مانگے ہم نے صاف انکار کر دیا۔ امریکہ کی ناراضی کو مول لے لیا۔ اڈے دیتے تو طالبان سے براہ راست جنگ کا سامنا ہوتا۔ کیا امریکہ ہمیں اس جنگ سے نکال سکتا تھا۔ اس کا ساتواں بحری بیڑا کبھی ہماری مدد کے لیے نہیں پہنچا۔ ہم سے ایف سولہ کی قیمت وصول کی گئی اور ہمیں کیا گیا کہ امریکی گندم لے لیں۔ اس کی دوستی ہمیں صرف چند ڈالر ملے لیکن اس کے بدلے میں ہم سے ہماری غیرت و حمیت لے لی گئی۔
 گزشہ ہفتے اسلام آباد یاترا میں ایک اہم ملاقات پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک سے ہوئی۔ کابل، افغانستان اور طالبان پر تفصیلی نشست ہوئی۔ کہنے لگے کہ پاکستان کو بڑی ہوشمندی سے آگے بڑھنا ہے۔ افغانستان ایک بڑی خونریزی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک بار پھر مہاجرین آئیں گے۔ اقتدار کی لڑائی میں ایک بار پھر خون کے دریا بہیں گے۔ اس بار طالبان اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ انہوں نے سوویت یونین کے بعد امریکہ کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ افغانستان کے علاقے طالبان کے کنٹرول میں آتے جا رہے ہیں۔ اس بار طالبان شہروں پر چڑھائی نہیں کر رہے ہیں بلکہ دوسرے حصوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کر رہے ہیں۔ آخر میں وہ شہروں کا رخ کریں گے۔
 سابق وزیر داخلہ رحمن ملک اب ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی چلا رہے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور قومی سلامتی کے امور کے ماہر ہیں انہوں نے کچھ خوفناک انکشافات بھی کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان کو جدید ہتھیاروں کی تربیت دی جارہی ہے جو آنے والے دنوں میں خطے کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نئی تربیت یافتہ طالبان کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا انعقاد نامعلوم مقام اور ملک میں کیا گیا ہے جس میں غالباً ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے شرکت کی ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ طالبان کی ٹریننگ کرنے والے کون ہیں، کونسا ملک ہے اور ان کے اہداف کیا ہیں۔بدقسمتی سے افغانستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تناؤ بڑھتا جارہا ہے جسے عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے اور پاکستان سے زیادہ کوئی بھی ملک افغانستان کے امن و استحکام کے بارے میں فکر مند نہیں ہوسکتا ہے۔ پاکستان افغان اور روس جنگ کا براہ راست شکار ہے جس کے بعد طالبان، القاعدہ اور داعش پیدا ہوئے جن کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ افغانستان کی صورتحال کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے اور افغانستان میں صورتحال مزید بگڑ رہی ہے، لہٰذا قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت سے اپوزیشن سے ملکر افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے قابل عمل جامع حکمت عملی تیار کرنے کی امید کر رہے ہیں۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان گنت قربانیاں دی ہیں اور آج ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا کہ قربانیوں کے باوجود آج ہمیں کیوں عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور افغان مسئلے سے کیوں دور رکھا جارہا ہے۔ 
سینیٹر رحمان ملک نے کچھ حیران کن انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان کے 8 فیصد سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جو آنے والے دنوں میں اس خطے کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ طالبان نے اپنی فوجی اور اسلحہ چلانے کی تربیت منظم فوجی طریقے سے حاصل کرلی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ تربیت کے پیچھے کون سا ملک ہے جو انہیں جدید اسلحہ بھی مہیا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں طالبان اپنے جیٹ طیارے رکھتے نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ تربیت بھارت میں حاصل کر چکے ہیں یا افغانستان یا وسطی ایشیا کے کسی اور ملک میں۔ انہوں نے کہا کہ ایک قابل اعتماد ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ امریکی افغانستان میں چابیوں سمیت اپنے ہتھیاروں اور 
بھاری جیپوں کو چھوڑ رہے ہیں اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اسلحہ اور جیپوں کو تباہ یا ساتھ کیوں نہں لے جایا گیا۔ رحمان ملک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جنگی حکمت عملی رکھنے والے اس خدشے سے دوچار ہیں کہ طالبان کا نشانہ کون ہوگا جو اب بہتر تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے آراستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پاکستان سرحد پر کشیدگی بڑھانے کے لئے ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ انٹیلی جنس ونگ (را) افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ”مستقبل میں، طالبان پاکستان، چین اور ایران کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں اور وہ اب ہمارے نہیں رہے بلکہ ہندوستان کے بن چکے ہیں“۔
انہوں نے کہا کہ روس نے طالبان کے دارالحکومت پر قبضے کی مخالفت کی ہے۔ وقت بتائے گا کہ آیا طالبان اب آزادانہ طور پر کام کریں گے یا مغربی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے استعمال ہوں گے۔
رحمن ملک ہی نہیں پاکستان کی سلامتی سے جو بھی جڑے ہوئے ہیں ان کی آرا کو اہمیت دینا بہت ضروری ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر لمحہ بہ لمحہ نظر رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ذرا سی بھی آنکھ جھپکی تو ہم مارے جائیں گے۔ سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں طالبان پر صرف ہمارا کنٹرول تھا اب طالبان کو کنٹرول کرنے والے بہت سے مراکز ہیں۔ یہ سارے مراکز اپنی اپنی ضرورت اور مقاصد کے تحت ان کو استعمال کریں گے۔