چور ڈاکوؤں سے مذاکرات

Mushtaq Sohail, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

حکم شاہی ہوا انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن سے مذاکرات کیے جائیں۔ کابینہ اجلاس میں حکومتی ارکان کو اپوزیشن سے رابطوں کی ہدایت کی گئی۔ دو تین روز بعد قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران بزبان خود اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی کہا آئندہ دھاندلی کے الزامات روکنے کے لیے ہمیں آج یہ اقدام کرنا ہوگا۔ اب الیکشن ریفارمز نہیں کریں گے۔ تو یہ سلسلہ مستقبل میں بھی چلتا رہے گا۔ میں اپوزیشن سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلہ پر بات کرے، الیکشن پاکستان کا مسئلہ ہے انتخابی اصلاحات جمہوری مستقبل سے جڑی ہیں“۔ اللہ کی شان یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے۔ گزشتہ 7 سال سے جنہیں چور ڈاکو اور مافیا کے القابات اور برے ناموں سے پکار رہے تھے آج ان ہی چوروں ڈاکوؤں سے مذاکرات کی درخواست کی ضرورت پڑ گئی۔ ”کس منہ سے کہیں آپ نے کیا بات کہی ہے“ اتنے بڑے ایوان میں کسی نے نہ روکا ٹوکا کہ عالی جاہ، اللہ آپ کا وقار بلند کرے آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رہے۔ ظل سبحانی چوروں ڈاکوؤں سے مذاکرات کیوں کیے جائیں۔ ہمت و جرأت ناپید، جمہوری حکومتوں میں ظل سبحانی کے فرامین پر اختلافات کرنے اور پارٹی لائن سے مخالف بولنے کی گنجائش کہاں ہوتی ہے۔ جمہوری حکومتوں میں ”بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“۔ 173 ارکان تین سال بعد بھی ساتھ ہیں۔ کامیابی کی دلیل اسی اتحاد کے باعث بقول شیخ رشید اپوزیشن کے ”رنگ پسٹن“ بیٹھ گئے اتحادیوں کے صدقے واری ان ہی کے دم سے بجٹ منظور ہوا۔ کسی نے نہ پوچھا کتنے ٹیکس لگے اور کتنے لگیں گے۔ حمایت میں کھڑے ہوگئے گنتی کی گئی بلاول بھٹو کی چیخ و پکار کام نہ آئی نقار خانے میں طوطی کی آواز کہاں سنائی دیتی ہے۔ بجٹ چشم زدن میں منظور،21 بل پلک جھپکنے میں آسانی سے منظوری کے مراحل طے کر گئے، اربوں کے مطالبات زر کی بھی منظوری دے دی گئی۔کسی جانب سے ”ٹف ٹائم“ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ن لیگ کے 14 ارکان کو ”ضروری کام“ یاد آگئے ان کی غیر حاضری لگی۔ سب کچھ بخیر و خوبی شیڈول کے مطابق تکمیل کے مراحل سے گزرا۔ پھر چبھن کیسی؟ چوروں ڈاکوؤں سے مذاکرات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کہیں سے کہا گیا ہوگا کہ بات نہیں بنی۔ باہر سے دباؤ اندر کی کھد بد نے مذاکرات کی درخواست کرنے پر مجبور کردیا۔ سوچا تو ہوگا۔ ان ”چوروں ڈاکوؤں“ سے بات کیسے اور کیوں کر ہوگی۔ ابھی کیفر کردار تک نہیں پہنچے۔ اندر کا فیصلہ ضمیر کی ضد،چور ڈاکو وہ جس کی چوری ڈکیتی ثابت ہوجائے۔ ثبوت کی فراہمی نیب کی ذمہ داری، سزاؤں کے لیے معزز عدالتیں موجود بلکہ موجودہ عدالتیں گزشتہ 3 سال سے اتنی فعال سرگرم اور مصروف کہ فاضل ججوں کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں۔ لاکھوں کیسز قطار میں لگے ہیں۔ انصاف ہو رہا ہے۔ نظر نہ آئے تو اپنا قصور، عدالتوں نے جنہیں سزائیں دیں اپیلوں میں چلے گئے۔ اپیلوں کا فیصلہ قسمت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیں گے اس سے پہلے کسی کو چور ڈاکو کہنا صرف سیاسی ضرورت یہ کیا کہ ادھر نیب نے کسی مسئلہ پر انکوائری شروع کی یا 
ریفرنس دائر کیا ادھر ”صالحین“ کی پوری ٹیم نے یک زبان ہو کر اسے چور ڈاکو کا نام دے دیا۔ یہ لقب اوپر سے نیچے تک اتنی بار دہرایا گیا کہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا بن کر چمٹ گیا۔ مجبوری کیا ہے۔ مذاکرات کیوں ضروری سمجھے گئے؟ اپوزیشن جمہوری عمل کا حصہ جنہیں چور ڈاکو کہتے زبان نہیں تھکتی وہ بھی عوام کے لاکھوں ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں، عوام انہیں چور ڈاکو نہیں سمجھتے تو کیا کیا جائے۔ 7 سال کے پراپیگنڈے اور الزامات کی بوچھاڑ کے بعد بھی عوام ان پر پھول برساتے ہیں ان کی گاڑیاں گلاب کی پتیوں سے ڈھک جاتی ہیں۔ راہوں میں خوشبوئیں بکھیرتے عدالتوں میں آتے ہیں تو یار لوگوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ پیشانیاں پشیمانیوں سے عرق آلود ہوجاتی ہیں۔ حکومتی حلقوں کا اصرار، اپوزیشن کا 3 سال بعد بھی چور ڈاکو ہونے سے انکار، منو بھائی مرحوم و مغفور یاد آگئے۔ انہوں نے چوروں، ڈاکوؤں کے احتساب پر طویل نظم لکھی تھی۔ ”احتساب دے چیف کمشنرساب بہادر، چوراں ڈاکواں کولوں کی پچھ دے او، اوہ تہانوں کی دسن گے کیوں دسن گے۔“ آمدم برسر مطلب، حکم اور ہدایت کے تحت مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن سوال اٹھا کہ مذاکرات کون کرے وزیر اعظم تو روز اول سے آج تک اپنی ضد پر قائم ہیں کہ ”چوروں، ڈاکوؤں“ کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے انہوں نے آج تک ان کی شکل نہیں دیکھی۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرنے پہنچے تو منہ قبلہ اسپیکر کی طرف چوروں ڈاکوؤں کی ساری سیٹیں پشت کی جانب تھیں۔ ادھر کا رخ کرنا گناہ کبیرہ، تقریر کی اور نعروں کی گونج میں ایوان سے رخصت مذاکرات کس سے کریں، جواب ملا اسپیکر ہیں ناں، سنجیدہ مزاج، مرنجان مرنج شخصیت، چپ ہوں تو غصہ میں لگیں بولیں تو منہ سے فیصلے جھڑیں، ہالی ووڈ کے ایک اداکار کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ وہ ایک ڈائیلاگ بولنے کے 15 ہزار ڈالر لیتا ہے۔ اسد قیصر بولتے کم سنتے زیادہ ہیں پوری حکومت میں شاید واحد شخصیت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زیادہ سننے اور کم بولنے کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ ورنہ تمام وزراء، مشیر، معاونین خصوصی اور ڈھیروں ترجمان سنتے کم بولتے زیادہ ہیں یہی ان کی سب سے بڑی کوالی فکیشن ہے۔ ”مرد تو مرد یہاں تو خواتین بھی ما شا ء اللہ کوما فل اسٹاپ کے بغیر 45 منٹ بے تکان بولتی ہیں۔ بلکہ ہاتھ پاؤں بھی چلا لیتی ہیں۔ اللہ جھوٹ بولنے والے راوی کو ہدایت دے کہنے لگے ایسی ہتھ چھٹ اور ایسے زبان دراز معاونین اور ترجمانوں کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے اور کسی مناسب وقت پر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس یا تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جائے گا۔ لیکن اپنے اسد قیصر ایسے نہیں ہیں چنانچہ انہوں نے ”چوروں ڈاکوؤں“ کو اپنے چیمبر میں بلایا مذاکرات کیے پارلیمانی کمیٹی بھی بنی، بعد میں طے ہوا کہ افغان صورتحال اور تنازع کشمیر سمیت اہم مسائل پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس منعقد کیا جائے۔ اجلاس میں اپوزیشن کے ارکان نے برضا و رغبت شرکت کی۔ بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور دکھتے مسائل پر اپنی محتاط آراء کا اظہار بھی کیا۔ باعث مسرت کہ ملک کے قومی مسائل پر سیاسی و عسکری قیادت یک زبان رہی لیکن اس موقع پر تلخ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اتنے اہم اجلاس میں وزیر اعظم کیوں نہ آئے؟ وفاقی وزیر نے کہا شہباز شریف نے روکا۔ ن لیگ کی ترجمان نے کہا ثبوت دکھاؤ۔ ثبوت کہاں ہے۔ وہی ضد وہی انا۔ ”چوراں ڈاکواں کولوں کی پچھدے او“ دوسرا سوال پہلے سے تلخ، انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کون کرے گا؟ وزیر اعظم نے تو اپوزیشن سے کٹی کر رکھی ہے۔ نہ ملنے کی قسم کھائی تھی اب تک قائم ہیں قسم ٹوٹی تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا مہنگائی میں گزارہ ویسے ہی مشکل سے ہوتا ہے، مذاکرات یقینا اسپیکر یا پھر کسی کمیٹی سے ہوں گے کیا اپوزیشن ان دو نمبر مذاکرات پر رضا مند ہوجائے گی؟ وزیر اعظم دل بڑا کر کے یا کڑا کر کے اپوزیشن سے بنفس نفیس مذاکرات کرتے تو زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتے تھے۔ مچان سے نیچے اتر کے بات کرلی جائے تو انتخابی اصلاحات کے علاوہ بھی کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ سلگتے مسائل جن سے عوام پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ مہنگائی سر فہرست، بجلی گیس کی بندش، احتجاج، مظاہرے، ہنگامے، مسائل قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں بات چیت سے کئی راستے نکل آتے ہیں۔ کڑوا گھونٹ پینے سے ”بکرے“ ذبح نہیں کرنا پڑیں گے۔ لیکن سیانے واقفان حال جانے کیوں کہہ رہے ہیں کہ قربانیاں تو ہوں گی اور آئندہ انتخابات تک اپوزیشن کے لیے ”چوروں، ڈاکوؤں“ کا اسٹیٹس (STATUS) برقرار رہے گا۔