تیسری سوچ!!!!

تیسری سوچ!!!!

پاکستان کی سیاست میں غیبی مداخلت اور غیبی کردار کوئی نئی بات نہیں۔ سالہا سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بالخصوص منتخب حکومتوں کے قیام اور بعد ازاں ان کو کنٹرول کرنے کیلئے مختلف قسم کے فارمولے مارکیٹ میں لائے جاتے ہیں اور بعض اوقات تو غیبی اور اجنبی کردار اس طرح سے انٹری ڈالتے ہیں کہ عقل حیران اور سوچ پریشان ہو جاتی ہے۔
اگرچہ ماضی میں تو بہت بھیانک صورتحال بھی رہی ہے لیکن پھر بھی اگر جائزہ  1985 سے لیا جائے تو غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ اور پھر محمد خان جونیجو جیسے غیر معروف سیاستدان کا وزیر اعظم بننا اور ہٹائے جانا، پھر محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں ڈکٹیٹر ضیا الحق کے منتخب کردہ شخص کو وزیر خارجہ لگانا، نوّے کی دہائی میں کسی بھی جمہوری حکومت کو مدت پوری نہ کرنے دینا ، تنازع کے بڑھ جانے کے باعث نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کی چھٹی کرانا ، پاکستان کی زبان اور کلچر سے نا آشنا معین الدین قریشی کو نگران وزیر اعظم مقرر کرنا ، ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے مسلم لیگ میں ایک نیا دھڑا قائم کرنا یا پھر پیپلز پارٹی کو تقسیم کر کے پیٹریاٹ کے نام سے ایک نئے دھڑے کا قیام ،پاکستان کی سیاست میں بالکل اجنبی شخص شوکت عزیز کو پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعظم مقررکرنا ، یا پھر مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے متحدہ مجلس عمل بنانا، وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو عدالتوں سے سزا دلانا اور پھر عمران خان کی تانگہ پارٹی میں دیگر جماعتوں سے الیکٹیبلز کو اکٹھا کرنا اور اسے راتوں رات ایک بڑی پارٹی بنا کر اقتدار میں لے آنا اور پھر اسی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرا دینا۔ اور اس قسم کی بیشمار سیاسی کارروائیاں محض اتفاقیہ تو نہیں ہو سکتیں۔ یقینا ان سب کے پیچھے پوری پلاننگ اور ہوم ورک موجود رہا ہے لیکن یہ سب کرنے والا آرکیٹیکٹ کہیں نظر نہیں آتا۔
 جس طرح ماضی میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے قبل بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا قائم کی جاتی تھی ، ٹھیک اسی قسم کے یا شائد اس سے بھی بدتر حالات کا وطن عزیز کو اس وقت سامنا ہے۔ اس وقت تو ملک کی سیاست اس قدر الجھ چکی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی بات کا یقین کریں اور کسے غلط جانیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پراپنائی گئی پالیسی  کے باعث نوے کی دہائی کے بعد ایک مرتبہ پھر سے ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اور سیاستدان اپنے مخالف کے لیے غیر ملکی ایجنٹ،ملک دشمن اور سکیورٹی رسک سے کم کوئی الفاظ منتخب نہیں کرتا۔ یعنی ہرسیاسی کارکن پر، اپنے لیڈر کی 
پیروی کرتے ہوئے، لازم ہے کہ وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے بارے میں اسی قسم کی سوچ اور نظریات رکھے جو اس کا لیڈر رکھتا ہے۔ سیاستدانوں کے اس فارمولے کے تحت تو ملک کے بیشتر سیاسی رہنما اورتمام عوام حب الوطنی کے معیار پر پورے ہی نہیں اترتے۔ عوام کو تقسیم کرنے کے اس گھنائونے کھیل میں صرف سیاسی پارٹیاں ہی مصروف عمل نہیں بلکہ مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر بھی عوام کو تقسیم کرنے کی مستقل کوششیں جاری ہیں۔ 
ملک میں سیاسی عدم استحکام اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بعض حلقے ملک میں نئے انتخابات کوناگزیر قرار دے رہے ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک مستحکم حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ،یعنی انتخابات پر عوام کے ٹیکس کے کروڑوں روپے لگا کر بھی اسی طرح جوتیوں میں دال بٹتی رہے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب تماشا ہی جاری رہنا ہے تو اس قسم کے تجربہ کی کیا ضرورت ہے؟ 
دوسری سوچ کہتی ہے کہ جمہوریت اور انتخابی عمل کا تسلسل ہر صورت میں برقرار رہنا چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
 لیکن ایک تیسری سوچ بھی ہے جو کچھ خدشات کی بنیاد پر تذبذب کا شکار ہے۔ یہ سوچ عمران خان حکومت کے خاتمہ پر ایک سوالیہ نشان تو لگاتی ہے لیکن وجوہات اس سے بالکل مختلف بیان کرتی ہے جو عمران خان صاحب بیان فرما رہے ہیں۔ 
اس سوچ کے مطابق حکومت کے دوران ایک تو عمران خان پر بے شمار الزامات تھے، دوسرا وہ معاشی معاملات، امورخارجہ، امور داخلہ اور دیگر اہم حکومتی امور چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے تھے اور تیسرا یہ کہ عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف خطرناک حد تک گر چکا تھا۔اس صورتحال میں وہ مستقبل کی سیاست سے بالکل ہی آئوٹ ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ لیکن کاریگروں نے انتہائی منظم طریقے سے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ جس کے نتیجہ میں عمران خان نہ صرف سیاست میں واپس آ گئے بلکہ وہ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے میں بھی خاطر خواہ حد تک کامیاب رہے۔  
 مجھے تو ذاتی طور پر اس تیسری سوچ سے کافی حد تک اتفاق ہے لیکن کچھ ذہین لو گ دلیل دیتے ہیں کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی لوگوں کو اقتدار میں لانے اور نکالنے کے فیصلے کرتی ہے اور اگر ایسا ہے تو اسٹیبلشمنٹ ایسا فیصلہ کیوں کرے گی کہ جس کے نتیجہ میں نہ صرف اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے بلکہ بعض لوگ تو گالیاں بھی دیں۔ اس اعتراض کے جواب میں عرض کر دوں کہ اس وقت تنقید کے نشانہ پر فرد واحد ہے پوری اسٹیبلشمنٹ نہیں ۔ اس کے علاوہ ہم سب کے علم میں ہونا چاہیے کہ جس چیز کا نام اسٹیبلشمنٹ ہے اس کا کوئی دل نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی اس کا کوئی مستقل اپنا یا پرایا ہوتا ہے۔ یہ ایک پالیسی کے تحت اپنے آپ کو ہی گالیاں بھی پڑوا سکتی ہے اور اپنے ہی خلاف مظاہرے بھی کرا سکتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب اسے ضرورت نہ رہے تو ڈکٹیٹر ضیا الحق کا طیارہ بھی فضا میں پھٹ جاتا ہے اور جنرل جہانگیر کرامت،  غلام اسحاق خان اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف جیسوں کو بھی استعفیٰ دینا پڑ جاتا ہے۔ 
اگر دوسری سوچ یعنی نئے انتخابات کرانے بات اور تیسری سوچ یعنی عمران خان کے پرانے گناہوں ، کوتاہیوں اور نالائقیوں کو درگزر کر کے اسے دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوشش ،کو ملا کر دیکھا جائے تو پلاننگ کرنے والوں کے عزائم واضح ہو جاتے ہیں۔لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر گیم اتنی ہی سادہ اور واضح ہے نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن اب تک اس گیم کا حصہ کیونکر بنے۔ اور وہ بدستور اس کا حصہ کیوں ہیں۔ شائد مستقبل میں ان سوالوں کے جواب بھی آ جائیں۔

مصنف کے بارے میں