بلاول بھٹو زرداری کا لاڑکانہ سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ

بلاول بھٹو زرداری کا لاڑکانہ سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ

پاکستان : پاکستان پیپلز پارٹی کی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عملی سیاست میں قدم رکھتے ہوئے لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست سے 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ کی نشست این اے 200 سے کاغذاتِ نامزدگی حاصل کیے ہیں۔

اس کے علاوہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق بلاول بھٹو کراچی کے اہم علاقے لیاری کی نشست این اے 246 سے بھی انتخابات لڑیں گے۔

بلاول بھٹو  کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو نے بھی کاغذات نامزدگی حاصل کیے ہیں تاہم انھوں نے یہ کاغذات صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 10 رٹو ڈیرو سے حاصل کیے ہیں۔

رہنما پیپلز پارٹی شرمیلا فاروقی کا یہ کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کا لاڑکانہ سے لڑنے کا فیصلہ ہو چکا ہےاور ابھی لیاری کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا باقی ہے۔

’لاڑکانہ سے تو وہ لڑ ہی رہے ہیں اور  آصفہ بھٹو جو سیاسی طور پر بڑی باشعور ہیں وہ لاڑکانہ میں بلاول بھٹو کی کوّرنگ امیدوار ہیں۔‘

بلاول اور آصفہ کے سیاست میں قدم رکھنے سے متعلق انھوں نے کہا کہ بھٹو خاندان کی تیسری نسل سیاست میں قدم رکھ رہی ہے اور جماعت کی باگ ڈور سنبھال رہی ہیں تو ظاہر ہے کہ جماعت کو فائدہ ہو گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں میں بلاول بھٹو کے سیاست میں باقاعدہ قدم رکھنے پر کہا جا رہا ہے کہ جب کوئی بھی بڑا یا کرشماتی رہنما عملی سیاست میں آتا ہے تو اس سے سیاسی جماعت کو ضرور فائدہ ہوتا ہے۔اور الیکشن کی مہم کا آغاز ہوتے ہی بلاول کے لیے سیاسی مخالفین نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جس سے بلاول کو نمٹنا ہو گا۔

گرینڈ ڈیموکریٹک فرنٹ فعال ہو گئی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی گرینڈ الائنس بن جائے گا۔

بلاول بھٹو کا سیاست میں داخل ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ایسا تو ہونا ہی تھا۔ اور انھوں نے کافی عرصے سے جماعت کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ بلاول کو اگلے رہنما کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔لیکن بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو دونوں کا 2018  انتخابات میں میدان میں اترنا اور وہ بھی سندھ میں کافی اہمیت رکھتا ہے اور دوںوںکی موجودگی سے جذباتی ماحول پیدا ہو گا جو کہ جماعت کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔

بلاول بھٹو نے پارٹی کا چیئرمین بننے کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کی اور پنجاب میں بھی پارٹی کا مرکزی کنوینشن منعقد کیا۔

عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کو فائدہ تو ضرور ہو گا کیونکہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ایک اور بھٹو کی سیاست میں آمد کا بے چینی سے انتظار تھا جوپارٹی کے ووٹ بینک کو دوبارہ مستحکم کر سکے۔

تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک اور قیادت مل گئی ہے۔ پہلے صرف آصف علی زرداری تھے جو ایوان صدر میں تھے لیکن اب ایک اور قیادت بلاول کی  صورت میں ملی ہے۔ دوسری بات یہ کہ زرداری اور بلاول کے کارکنان سے بات کرنے کے طریقے میں فرق ہے۔‘آصف زرداری اور بلاول دونوں ہی نے پنجاب میں جماعت کے کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کو اتنی کامیابی نہیں ملی ہے۔’لیکن سندھ میں بلاول ضرور اپنی پارٹی کو آگے کی جانب لے کر جائیں گے۔‘

تجزیہ کار راشد رحمان کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی جماعت کا کوئی ہائی پروفائل رہنما انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو اس جماعت کا پروفائل بڑھتا ہے۔

 مزید کہ جماعت تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکمت عملی سمجھ آتی ہے کہ آگے چل کے بلاول ہی نے پارٹی سنبھالنی ہے تو ایک بنیاد بنائی جا رہی ہے۔

’بلاول بھی الیکشن لڑ رہے ہیں تو ایک لاڑکانہ سے اور دوسرے شاید لیاری سے جو دونوں سندھ میں ہیں۔ بلاول اس وقت کسی ایسی نشست سے نہیں لڑیں گے جہاں ان کو اس بات کا خدشہ ہو کہ وہ ہار جائیں گے۔ ان کی شکست جماعت کے لیے بڑھا دھچکہ ہو گا۔