یوکرائن اور روس کس بات پہ لڑ رہے ہیں ؟

یوکرائن اور روس کس بات پہ لڑ رہے ہیں ؟

 1991 میں یوکرائن روس سے جدا ہو کر الگ ریاست بنا۔ یہ ریاست موجودہ روس اور یورپ کے درمیان موجود ہے۔ آزادی سے پہلے یہ روس اور یورپ کا بارڈر تھا۔ یہاں روس نے اپنے زیادہ تر ایٹمی ہتھیار بھی یہاں رکھے ہوئے تھے۔ روس کا مرکز کمزور تھا اور ریاستیں الگ ہو رہی تھی۔ الگ ہونے کے بعد بھی یہ ایٹمی ہتھیار یوکرائن میں ہی رہے۔ یوکرائن میں دو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تقریباً آدھے یوکرائن میں یوکرینین بولی جاتی ہے اور باقی آدھے میں روسی زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ مغربی یورپی سمت میں یوکرینین ہیں۔ اس ملک پر روسی اثرات صدیوں پرانے ہیں۔ ان کی ثقافت لباس وغیرہ سب آج بھی روسیوں جیسا ہے۔ الگ ہونے کے بعد یورپی ممالک اور امریکا نے اسے آزاد یورپی ممالک جیسا بنانے کے لئے اقدامات کئے۔ ملک کے اسی فیصد عوام آج یورپی نظام کو بہتر مانتے ہیں۔ باقی بیس فیصد لوگ روسی نظام کے خواہاں ہیں۔ ان کے کمیونسٹ بابے اپنے لوگوں کو روس کا سنہری دور یاد دلا کر گرماتے ہیں۔ یہ بیس فیصدروس پسند لوگ یوکرینی زبان والے نہیں بلکہ روسی زبان والے ہیں اور اسے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی پشتون خود کو افغان کہہ جاتے ہیں۔آزاد ہونے کے بعد یوکرائن اور روس دونوں سنبھلنے لگے۔ روس نے سب سے پہلے اپنے ایٹمی ہتھیار واپس مانگے۔ اقوام متحدہ کے مشورے پر یوکرائن نے آزادی کے پانچویں سال یہ ایٹمی ہتھیار روس کو اس شرط پر واپس کر دئیے کہ روس کبھی یوکرائن کی طرف فوج کشی نہیں کرے گا۔ یہ ڈیل 
مان لی گئی۔ ممکنہ جنگ کے خطرے سے نمٹ لیا گیا اور یوکرائن میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کے نقصان سے بچا لیاگیا۔ یاد رہے اسی یوکرائن کے شہر chernobyl میں ایٹمی بجلی گھر 1986 میں پھٹ گیا تھا۔ روسی انخلا کے بعد ایٹمی فضلہ صاف کرنے میں انڈیا اور امریکہ نے مدد کی تھی، جو تاحال ہو رہی ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ یوکرائن کے وزیراعظم جب یورپی یونین کے ساتھ الحاق کی بات کرتے ہیں تو روسی زبان والے بپھر جاتے ہیں۔ جب روسی الحاق کی بات ہوتی ہے تو یوکرینین بولنے والے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں۔ یہ ملک دو بڑی طاقتوں اور دو براعظموں کے بیچ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ یوکرائن اور روس نے آپس میں بہت معاہدے بھی کئے۔ روس نے اسے تیس فیصد سستی گیس دی بدلے میں اس نے اپنے بلیک سی پہ بنے پورٹ تک رسائی دی۔ روس کی Economy میں گیس اہم کردار ادا کرتی ہے یورپ کو جو گیس بیچی جاتی ہے اس پائپ لائن کا بڑا حصہ یوکرائن سے ہو کر گزرتا ہے۔ روس نے 2014 میں امن معاہدے کی خلاف ورزی کی اور فوج داخل کر کے یوکرین کے اسی بلیک سی پورٹ کا پورا علاقہ crimea اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہاں کے لوگوں نے روسی فوج کو ویلکم کیا، روس نے ریفرینڈم کرایا اکثریت نے روس کا ساتھ دیا۔ اقوام متحدہ، یورپ و امریکہ نے روس کو دھمکایا۔ روس نے جواب دیا کہ اگر وہاں کے لوگ یہی چاہتے ہیں تو کوئی باہر والا ان کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتا۔ یہی سچائی تھی اس لئے کوئی کچھ نہ کر سکا۔ یہ علاقہ کیوں ضروری تھا؟۔۔ یوں سمجھیں کہ پانی کے راستے کراچی سے گوادر جانا ہو تو درمیان میں سومیانی کا ساحل آتا ہے۔ ایسے ہی درمیانی ساحل پہ روس نے 2014 میں قبضہ کر لیا اور مشرقی و مغربی یوکرین کے سمندری راستے کو کنٹرول میں لے لیا۔ اس راستے سے گزرتے بحری جہازوں کو 2018 میں روکا گیا۔ آگے نہ جانے دیا گیا۔ یہ جہاز واپس ہوئے تو روس نے بمباری کی اور جہازوں اور عملے کو یرغمال بنا لیا۔سمندری مسئلہ بیان کر چکے ہیں اب زمینی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یوکرین کا علاقہ Donbas ایک انڈسٹریل علاقہ ہے کراچی سے 7گنا بڑا ہے۔ اور روسی سرحد پہ واقع ہے۔ یہاں روسی زبان بولنے والے رہتے ہیں ان کی محبت روس سے ہے اور روس نے ان کی مدد کر کے یوکرین کی آرمی کو پیچھے دھکیل دیا۔ اب یہ donbas کا علاقہ عملی طور پر روس اور یوکرائن دونوں کے قبضے میں ہے۔ یہاں روس مقامی لوگوں کی فوجی ٹریننگ کر رہا ہے اور زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل لگا کر یوکرائن کے مسافر جہاز کو گرا چکا ہے۔ یوکرین اس کا الزام روس پہ لگاتا ہے روس لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔پریشانی یہ ہے کہ روس چاہتا ہے کہ یوکرین یہاں ریفرنڈم کرائے اور مقامی لوگ جس کے ساتھ چاہیں الحاق کریں۔ یوکرین چاہتا ہے روسی فوج اپنے اسلحے سمیت اس علاقے سے نکلے تب شفاف ریفرنڈم ہو سکے گا۔ روس کا جواب ہے کہ پہلے الیکشن ہو گا بعد میں اگلی بات ہو گی۔پچھلے پندرہ سال سے یوکرین میں کولڈ وار چل رہی ہے۔ روس کو یہ علاقہ واپس چاہئے۔ مگر یوکرین کے آدھے سے  زیادہ لوگ یورپ طرز پر چلنا چاہتے ہیں اور اپنی آزادی پسند کرتے ہیں۔ روس کو لگتا ہے یوکرین میں رہنے والے روسیوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ یہ قوم پرستی کے زیرسایہ اپنے مفادات کی جنگ ہے۔

مصنف کے بارے میں