میڈیا کا طوفان اورتبدیلی کایوٹرن

 میڈیا کا طوفان اورتبدیلی کایوٹرن
کیپشن: Asim Naseer Blog on PTI

ابلاغیات کے طالب علم کی حیثیت سے اپنے گرد و پیش کے واقعات کو خبر کی نظر سے دیکھنا میری عادت بن گئی ہے خوشی ہو یا غمی ہر جگہ خبر کو تلاش کرنے کی جستجو بھی ہوتی ہے۔ شاید یہ عادت میرے ساتھ وابستہ افراد کو ایک آنکھ نہ بھاتی ہو اور جانے انجانے وہ سب برداشت کرنا شروع بھی ہو گئے۔میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ دنیا بھر میں میڈیا کے لیے کریڈٹ لائن سمجھی جاتی ہے

مگر پاکستان میں یہ ستون نہ جانے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر جس سمت چل نکلا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ خواہشات کو خبر کی شکل دینا ہماری عادت بنتی جا رہی ہے۔

آج جب ٹی وی کی سکرینوں پر نگاہ دوڑائیں تو ہر جانب ایک ایسا شورسنائی دیتا ہےجوتقریباً سب نیوز چینلز کی سکرین پرمسلسل ایک مخصوص ربط کے ساتھ جاری ہے اور وہ ہے کہ سب سے پہلے ہم نے یہ خبر بریک کرنے کا اعزاز حاصل کیا،کوئی شورمچا رہا ہوتا ہےکہ ہم ہیں نمبر ون۔ تو وہیں کوئی اپنا منجن فروخت کرنے کے لئے اپنے آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ قرار دے گا۔

بولنے کی آزادی کے طلبگار یہ ادارے اپنے ملازمین کو کتنی آزادی دیتے ہیں یہ الگ بحث ہے

تاہم آپ ان سکرینوں کے اندر کے حالات دیکھیں تو آپ کو علم ہو کہ کیسے یہ نمبر ون کہلوانے اور ریٹنگ کی دوڑ کے یہ گھوڑے اپنے ملازمین کا کس بے دردی کے ساتھ استحصال کرتے ہیں! اگرعام آدمی جان جائے تو شاید نمبرون کا کریڈٹ کسی کو بھی نہ دے۔
یوں تو نومبر کے آتے ہی موسم نے انگڑائی لی اور خنکی میں اضافہ ہوگیا تاہم ملک کا سیاسی درجہ حرارت جون میں صحرا کی تپتی ریت سے بھی زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے اوراس طوفان کے پیچھے ایک ہاتھ ڈبے کی سکرین کا بھی ہےجو کسی ایڈونچر کی تلاش میں تمام صحافتی اقدارکوپیچھے چھوڑتا ہوا تیزرفتاری سے ایسے آگے بڑھ رہا ہےکہ گمان ہوتا ہےکہ اسے خود بھی اپنی منزل کا علم نہیں۔

کچھ نیوز چینلز نے تو ملک کے اندر ہی جنگ کا ماحول پیدا کر دیا ہے

دھرنےسے پہلے بڑی جنگ ’دھرنے کی سب سے بڑی کوریج ‘ عوام پوچھنا چاہتی ہے کہ جس طرح عمران خان نے یوٹرن لیا اور 2 نومبر کےدھرنے کوموخر کیا اب وہ عوام کو کیا سودا بیچیں گے؟ یوٹرن سے خان صاحب کے طرزسیاست کا اب سب کوعلم ہوجانا چاہئے۔

ارے خان صاحب عوام تبدیلی تو چاہتے ہیں مگر تبدیلی کے نام پر سراب نہیں۔ تبدیلی کے نام پر کٹھ پتلی تبدیلی نہیں۔ تبدیلی کے نام پر یوٹرن نہیں۔ آپ یہ کیوں نہیں کرتے کہ اپنی محنت اور قابلیت سے ثابت کریں کہ آپ پاکستان کےلیے ضروری ہیں نا کہ آپ انتشار کی سیاست کو ہوا دے کر عوام کو بے وقوف بنانے کی سیاست کرتے رہیں۔

خان صاحب،یہ کمیشن تو وزیراعظم نے پہلےدن ہی آفر کر دیا تھااور اس کے لئے سو جوتے اورسوپیازکھانے کی کیا ضرورت تھی؟

اگر آپ نے سپریم کورٹ کی سماعت پر ہی یہ دھرنا ختم کرنا تھا تو کیوں اس طرح عوام کو بے وقوف بناتے رہے،عوام کوخوار کراتے رہے؟

آپ تو بنی گالہ کی پہاڑی سےنیچےنہیں آئےاورعوام آپ کی کال پر لیبک کہتے ہوئےکئی دن سےجیلوں میں صعوبتیں برداشت کررہےہیں جبکہ تمام لیڈرشپ بنی گالہ میں خوش گپیاں میں مصروف ہے۔درحقیقت دھرنا ختم کرنے کی وجہ سپریم کورٹ میں سماعت نہیں تھی بلکہ خان صاحب کے دھرنے میں آخری اطلاعات کے مطابق عوام کی مایوس کن شرکت تھی۔ کارکنوں کی تعداد مایوس کن حد تک کم تھی اوران حالات میں فیس سیونگ کا جواز چاہئے تھا جو پہلے ایک سانحے نے دیا اور اب سپریم کورٹ سے لیا گیا اور اس طرح دونوں کا فائدہ ہو گیا۔

دراصل ملک میں کوئی بھونچال نہیں تھا سب کچھ صرف میڈیا کا خودساختہ طوفان تھا جو مخصوص حلقوں کی جانب سے حکومت پر پریشر ڈالنےاورنئے آرمی چیف کے نام پرحکومت کو گھٹنےٹیکنےپرمجبور کرنے کےلئے کیاجارہا تھا اورعمران خان کی جانب سے اعلان نے چائے کی پیالی میں برپا سونامی کو ختم کر دیا اور سنجیدہ حلقوں کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ خان صاحب اچھے کھلاڑی تو تھے مگر اچھے سیاستدان نہیں۔

آخر میں مجھے اپنے ان صحافی دوستوں پر ترس آرہا ہے جو 2014ءکے بعد ایک مرتبہ پھرخان یوٹرن کا شکار ہوئے

ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ابھی وقت ہے کہ کسی سراب کے پیچھے مت دوڑیں اورملکرپاکستان کےلیے اپنا مثبت کردارادا کریں کیونکہ پاکستان کوہم سب کی زیادہ ضرورت ہے۔

مصنف کے بارے میں