بچھڑے دوست کی یادیں

 بچھڑے دوست کی یادیں
کیپشن: ali waqar

ماتھے پر سہرا سجانے میں تقریباً ایک ماہ کا وقت ہی رہتا تھا۔ شادی کے لئے تمام تر تیاریاں زور شور سے جاری تھیں کبھی میں او ر میرے سات برس کا ساتھی، دوست اور بڑے بھائی جیسا علی رضا کھرل (مرحوم) شام کو اکثر لاہور کی پررونق اور روشنیوں سے جگ مگ کرتی مارکیٹوں میں شادی کی تیاری کےلئےخریداری کے لئے نکل جاتے تھےلیکن آہ تین نومبر 2015کی وہ رات جب اچانک فون کی گھنٹی بجی تو کانوں میں آواز پڑی کے آپ علی رضا کے دوست علی وقار بول رہے ہیں تو نیند کی حالت میں ہاں میں جواب دیا تو پاوں تلے زمین کھسک جانے والی بات سنی ایسا لگا جیسا صدیوں سے سویا ہی نہیں تھا ٹیلی فون پر بات کرنے والے علی رضا کھرل ( مرحوم ) کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ تمہارا ہر دل عزیز دوست علی رضا لاہور سے گھر جاتے ہوئے موٹر وے کے قریب ایک ٹریفک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملا ہے پہلے تو یقین ہی نہیں آر ہا تھا لیکن جیسے ہی وہ فون بند ہوا تو ایک اور عزیز دوست شیخ زین العابدین کا فون آ گیا اس نے بھی ایسی ہی بات دہرائی تو یکا یک آنسو کی لڑی آنکھوں سے چھلکنا شروع ہو گئی لیکن پھر بعد میں اللہ کی رضا کو جانتے ہوئے حوصلہ کیا اور فوراً گھر سے ہسپتال کی جانب روانہ ہو گیازندگی کے وہ چند منٹ کبھیبھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھول سکتا۔

علی رضا کھرل( مرحوم ) سے اپنے تعلق کی بات کروں توآغازہواتھا یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات میں داخلہ ملنے کے بعد جب پہلے دن کلاس میں داخل ہو ا تو سکول کے زمانے سے ” بیک بینچ“ پر بیٹھنے کی عادت سے مجبور ابلاغیات کی کلاس میں بھی ایسی ہی سب سے پیچھے والی کرسی پر نظر پڑی تو وہاں دو نوجوان جس میں علی رضا کھرل (مرحوم) اور دوسرا سید توقیر عباس آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ دل میں گھبراہٹ کا احساس اس وقت قدرے کم ہو گیا جب علی رضا کھرل نے آواز دی بھائی جی ایدھر آ جاو۔ بس وہ پہلی نشست ایسی دوستی میں بدلی کہ سات برس دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کم و بیش دس گھنٹے ایک ساتھ ہی گزارتے تھے۔

عمر اور قد میں مجھ سے بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ علی رضا کھرل (مرحوم ) شخصیت میں بھی مجھ سے دس گنا بڑا انسان تھا۔
یونیورسٹی کے تقریبا ً تمام طلباءعلی رضا کھرل ( مرحوم) سے واقفیت رکھتے تھے اس کی وجہ نہ صرف یہ کہ وہ یونیورسٹی کے سب سے قد آور لڑکے میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خلوص میں بھی اپنی مثال آپ تھا،استاد ہوں یا کلاس فیلوز یایونیورسٹی فیلوز سب کوایسےخلوص سےملنا کہ ملنےوالا دوبارہ ملنے کی خواہش دل میں ضرور رکھتا لیکن وہ انداز جسے میں آج بھی نہیں بھلا سکتا وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا آج بھی کانوں میں وہ آواز گونجتی ”کیا حال ہے کیسے ہو“ان دوالفاظ کی ادائیگی میں جومٹھاس ہوتی بس۔

، چیچہ وطنی کسوال سےتعلق رکھنےوالا علی رضا کھرل (مرحوم) ایک لحاظ سےتنہائی کا شکاربھی تھا۔اللہ تعالی نےعلی رضا کھرل ( مرحوم) کو زندگی میں بہت سےامتحانوں میں بھی ڈالا جو بیان تو نہیں کر سکتا لیکن بہن یا بھائی جیسی نعمت سے بھی نہیں نوازا تھا والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود گاوں میں قائم روایتی دشمنی کے باعث علی رضا کھرل (مرحوم) کےوالدین نےیہی غنیمت جانی کہ بہتر مستقبل کے لئے لاہورمیں ہی قیام کرو جس کی وجہ سے میٹرک سے سفر آخرت تک لاہور میں ہی قیام پذیررہا۔تنہائی کے احساس کو دور کرنے کے لئے وہ رات گھومنے پڑھنےمیں گزارکردلی تسکین حاصل کرتا تھا۔

خیریونیورسٹی میں جب میری دوستی بھائی چارے میں بدلی تو گرمی ہوتی یا سردی اکثر رات کےاوقات علی رضا کھرل ( مرحوم) کی گاڑی میں لاہور کی سڑکوں پر ہلکی موسیقی لطف اندوز کرتے ہوئے ہی گزرتی تھی۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کےبعد روزنامہ ” نئی بات “ کے چیف ایڈیٹر چوہدری عبد الرحمن جو ہمارے استاد بھی ہیں انہوں نے علی رضا کھرل کی صلاحیتوں کو خوب بھانپتے ہوئے مجھ سمیت علی رضا پر اعتما د کیا اور ہمیں بطور رپورٹر فرائض سر انجام دینے کی ذمہ داری سونپی جسے علی رضا نے باخوبی نبھایا اور نیو ٹی وی کی صف میں شامل ہوا تو دن رات محنت کرنے اور ٹی وی کی کامیابی کے لئے جستجو کرتا رہا۔ پیشہ وارانہ میدان میں قدم رکھا تو اس دوران بھی تعلق مزید مضبوط ہوتا گیا ہرمشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اوراپنی صلاحیتوں کالوہامنوایا۔

علی رضا کھرل ( مرحوم ) کو اس دنیا ئے فانی سے کوچ کئے ایک برس بیت گیا وقت کی تیزی نے یہ احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ دوست جو ہر وقت زندگی کو انجوائے کرنے کے لئے تیار رہتا تھا اچانک زندگی اس سے روٹھ جائے گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے دور منوں مٹی تلے دب جائے گا اور اپنی خوبصورت یادیں ہمارے لئے چھوڑ جائے گا
 

آج بھی نہ صرف ہمارے نیو ٹی وی کے دفتر میں موجود تمام سٹاف ممبر بلکہ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ وہ تمام لوگ جن کا مرحوم کےساتھ تعلق قائم تھا وہ اس کی کمی کوشدت سےمحسوس کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی مرحوم کے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین۔

مصنف کے بارے میں