“بول کہ لب آزاد ہیں تیرے”

 “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے”

ملکی سیاست آج ذاتی مفادات، ہوس اقتدار اورانا کا خود غرضانہ کهیل بن چکی ہے جبکہ ملکی مفاد کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں خاندانی تسلط میں ہیں، کچھ فرد واحد کی جاگیر ہیں، کہیں مذہبی رہنما امور سیاست چلا رہے ہیں اور کہیں قوم پرستی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ بقول شورش کاشمیری

مرے ملک کی سیاست کا حال مت پوچهو
گهری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

اس سیاسی منظرنامےمیں ملکی مفادات کاتحفظ حکمران جماعت کی ذمہ داری ہے جبکہ اپوزیشن کا توکام ہی حکومت کی غلط کاریوں کو اجاگر کرنا ہے البتہ انتشار پهیلانا اور قانون کی دهجیاں اڑانا کسی طرح بهی درست قرارنہیں دیا جا سکتا۔ ربع صدی سے مسند اقتدار پر فائز حکمرانوں کی ایک بڑی غلط کاری پانامہ لیکس کی شکل میں آج قوم کےسامنےسسک رہی ہےجس کے بارے میں احتجاج کرنےوالوں کو یقین کامل ہے کہ حکمران خاندان کا دامن ہرگز صاف نہیں۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلیے تحریک انصاف کی تنہا جدوجہد اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا عملاً یہ باور کروانا کہ پانامہ لیکس پر اصل مدعی صرف عمران خان ہے، افسوسناک ہے۔ اس مالیاتی سکینڈل پر چہار سو مجرمانہ خاموشی لالچ اقتدار اور خود احتسابی سے فرار کے سبب ہے۔

آج عمران خان کی کرپشن کیخلاف جدوجہد میں ایک قدم پیش رفت ہوئی جس کےبعد انہوں نے 3نومبر کویوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔

ایک طرف دارالحکومت پرچڑهائی کرنے کیلئے تحریک انصاف کی تیاریاں عروج پرتھی تودوسری جانب مخالفین احتجاج کو ناجائز ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ حقیقت یہی ہےکہ اگر حکمران خاندان غیرمشروط طورپراحتساب کیلئے پیش نہیں ہوتا تو اس ایشو پراحتجاج ضرورہونا چاہیےلیکن احتجاج کےنام پرپاک سرزمین کےداخلی استحکام کو سولی چڑهانادانشمندی نہیں؟

اس احتجاج کی وجہ سے عمران خان پر مسلسل الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو پہلے سے لاحق اندرونی و بیرونی خطرات میں اضافہ کر رہے ہیں

ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو ابهی تک اپنے سپریم لیڈر کے ڈاون فال کا یقین نہیں. چونکہ آج کے عوامی نمائندوں کی اکثریت مال و مرتبہ کے سوا کوئی نظریہ نہیں رکهتی اس لیے یہ کرسی اقتدار سے اس وقت تک چمٹے رہتے ہیں جب تک اس کی چولیں نہ ہلنے لگیں۔ ایک المناک حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ احتجاج نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی یا نظام کے تلپٹ ہونے کے قریب پہنچا تو فورا ابن الوقت قسم کے درجنوں “باضمیر” رہنما پانامہ سکینڈل پر حکمران خاندان کے احتساب کی حمایت میں آوازیں بلند کرتے نظر آئیں گے۔ بہر کیف حکمران خاندان اور انکے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا موجودہ طرز عمل اخلاقی زوال کی علامت ہے۔

اگر نون لیگ کے معززممبران قومی و صوبائی اسمبلی ملکی مفاد کے پیش نظر اپنے لیڈران کو احتجاج سے قبل احتساب کیلیے پیش ہونے پر مجبور نہیں کرتے تو وہ بهی ملکی نقصان میں برابر کے شریک ہوں گے۔ اس صورت میں ان سے بہترتو ڈاکٹر فاروق ستار ہونگے جنہوں نے پارٹی لیڈر کےغلط اقدام کی کهلے عام مخالفت کی، ان سے بہتر تو جاوید ہاشمی ٹهہریں گے جنہوں نے قومی مفاد کی خاطر اپنا ذاتی نقصان کر کے بهی ہمیشہ حق بات کیلیے اپنے لیڈرسے اختلاف کیا۔ کاش حکمران جماعت کی درمیانے اور نچلے درجے کی قیادت میں کوئی باضمیر، نظریاتی اور شیر دل رہنما جاگ اٹهے۔

بول کہ لب آزادہیں تیرے۔

مصنف کے بارے میں