آئی ایم ایف سے جڑے عوام کے مسا ئل

آئی ایم ایف سے جڑے عوام کے مسا ئل

کچھ عر صے سے جاری ڈ یڈ لا ک کے بعد مشیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسی ہفتے معاہدہ طے پانے کا عندیہ دیا ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں سے حکومت کی معاشی ٹیم کی ساری توجہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط پر مرکوز تھی۔بد نصیبی سی بد نصیبی کہ قر ض کا مل جانا کا میا بی سمجھا جا نے لگاہے۔ تا ہم اس دوران ملک میں توانائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں مہنگائی 9.2 فیصد کی شرح کے ساتھ رواں مالی سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی مگر حکومت کی جانب سے مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر جان چھڑائی جاتی رہی ہے۔ 
اس دوران قیمتوں میں ریلیف کی حکومتی یقین دہانیاں بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں معاشی پسماندہ آبادی کے لیے آٹا، چینی اور گھی کی خریداری پر ٹارگٹڈ سبسڈی کا اعلان کیا تھا مگر اس پروگرام میں ابھی صرف لوگو اور ٹیگ لائن ڈیزائن کی حد تک پیش رفت نظر آتی ہے۔ عملی طور پر یہ پروگرام کب اور کیسے کام کرے گا، یہ معاملہ ابھی اجلاسوں میں زیربحث ہے۔ ایک خبر کے مطابق اس منصوبے کے لیے موبائل پوائنٹ آف سیل قائم کیے جائیں گے۔ اگر یہی بات ہے تو خدشہ ہے یہ یہ موجودہ حکومت کے سطحی منصوبوں میں ایک اضافہ ثابت ہوگا۔ اس سے قبل حکومت مفت کھانے کی فراہمی کے لیے بھی موبائل کچن کا ایک منصوبہ چلا رہی ہے مگر ایسے منصوبوں کی پہنچ چونکہ آبادی کے ایک بہت ہی محدود حلقے تک ہوتی ہے، چنانچہ ملکی سطح پر تخفیف غربت یا ریلیف میں ایسے منصوبوں کا کردار نہ ہونے کے برابر رہتا ہے۔جبکہ اگر تلخ حقیقت کا ذکر کروں تو کہنا پڑتا ہے کہ آ نکھو ں دیکھی با ت تو یہ ہے کہ مفت کھانے کے اِس قسم کے مرا کز سے فیض اٹھا نے وا لو ں میں غر یب اور ضر ورت مند فیملیز کبھی نظر نہیں آئیں۔ البتہ آ وا ر منش عنا صر کی ہمیشہ بہتا ت رہی۔ تو اب اگر ٹارگٹڈ سبسڈی کا پروگرام بھی کھانا کھلانے والے منصوبے کی طرح ہوا تو اس کا شہرہ زیادہ مگر فائدہ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مستحق آبادی کو اشیائے ضروریہ کہ خریداری میں مالی اعانت مہیا کرنے کے لیے حکومت پہلے سے موجود یوٹیلٹی سٹورز کے نظام کو نظرانداز کر رہی ہے۔ صرف نظرانداز ہی نہیں ان سٹوروں پر موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے عملی طور پر اعانت کا یہ ذریعہ ختم کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب، جب تک ٹارگٹڈ سبسڈی کا نیا منصوبہ شروع نہیں ہوتا کم آمدنی والا طبقہ کیا کرے؟حکومت بازار کے نرخوں پر بھی قابو نہیں پاسکی۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تعین تو حکومت کرتی ہے مگر متعین قیمتوں کا نفاذ نہیں کرواپاتی۔ بعض بڑے سٹوروں میں مخصوص کائونٹر پر سرکاری قیمتوں پر بیچنے کے لیے اشیا رکھی جاتی ہیں مگر یہ سہولت بھی محدود ہے۔ چاہیے تو یہ کہ ہر دکان پر سودا اسی نرخ پر بکے جو حکومت کا طے کردہ ہے مگر عملاً ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت سودا سلف اور پھلوں سبزیوں کی جو فہرست جاری کرتی ہے وہ ایک رسمی کارروائی ہے۔ حکومت آئے روز ریلیف کا ذکر کرتی ہے مگر سرکاری نرخ ناموں کا نفاذ نہیں کرواتی، نہ ہی اس معاملے میں ہونے والی کوتاہی کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ریلیف کا آغاز یہیں سے ہونا چاہیے اور ان ضروری اشیا کی فروخت اگر سرکاری نرخوں پر ہونے لگے تو اس کے اثرات یقینا اتنے وسیع ہوں گے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی جیسا کوئی پروگرام اس کے فوائد کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مستحق لوگوں کو حکومت ضرور سبسڈی دے، بشرطیکہ اس کے لیے شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے اور سیاسی اثر و رسوخ اور سفارش کے بجائے خالص میرٹ پر حق دار لوگوں تک یہ حق پہنچایا جائے۔ اس کے باوجود عمومی مہنگائی اور قیمتوں کے معاملے میں بازار کی من مانی کا ازالہ ضروری ہے۔ مہنگائی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بحیثیت مجموعی جو کام کرنے کی ضرورت ہے قیمتوں کا واضح تعین اور ان کا نفاذ ان میں سرفہرست آتا ہے۔ وزرا مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور عام آدمی جو عالمی سطح پر قیمتوں کے اتار چڑھائو پر نظر نہیں رکھے ہوئے، یہ سن کر خاموش ہے۔ ستم ظر یفی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ ملک میں جن اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہورہا ہے وہ درآمدی اشیا نہیں ، ملکی پیداوار ہیں۔ مثال کے طور پر موسمی سبزیاں اور پھل، آٹا اور گوشت۔ ان اشیا کی قیمتوں پر نہ ڈالر کی کمی بیشی کا اثر ہے نہ ہی عالمی طلب اور رسد کے عوامل ان پر اثر انداز ہیں۔ یہ سو فیصد داخلی معاملہ ہے اور صرف اس لیے بے قابو ہے کیونکہ حکومت اپنے تین برس کے دورانیے میں ایسا کوئی طریقہ دریافت نہیں کرسکی جس سے قیمتوں کو منظم رکھنے کا انتظام کیا جاسکے۔ حکومت کے پاس انتظامی، قانونی ہر طرح کے اختیارات ہیں مگر قیمتوں کی مینجمنٹ کا مسئلہ قابو سے باہر رہا ہے۔ کیا یہ کام صرف بیان بازی سے ہوسکتا ہے؟ گزشتہ روز وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر عام آدمی کو ریلیف دینے کی غرض سے ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کی۔مگر اْن کی آ وا ز اب نقا ر خا نے میں طو طی کی صدا بن کے رہ گئی ہے۔ کو ئی اس پہ کا ن دھرنے کا تیا ر ہی نہیں۔ وزیراعظم صاحب کی اس نوع کی پہلی ہدایات کے اثرات کو دیکھیں تو کسی پائیدار ریلیف کی توقع نہیں کی جاسکتی مگر پھر بھی گیند وزرا اور حکومتی اداروں کی کورٹ میں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے اور ماضی کی غیرفعالیت کا شکوہ دور کیا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے معاملات طے پانے کی پیش رفت کو عام آدمی کی دلچسپی کے تناظر میں دیکھیں تو بنیادی سوال یہی ہے کہ عام آدمی کی معیشت پر اس سے کسی طرح کے مثبت اثرات کی امید کرنی چاہیے؟ آنے والے دنوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان ہے؟ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے جو یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں  ان پہ یقین کر لینے کی کو ئی ٹھو س وجہ نظر نہیں آ تی۔ سچ کی پو چھیں تو عوام خو د کو اس وقت ایک ایسی بند گلی میں محصو ر پا رہے ہیں جس سے با ہر نکلنے کا کو ئی بھی را ستہ سجھا ئی نہیں دیتا۔