22 ممالک کی 60 فیصد لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر ہراسانی کی شکایت کر دی

22 ممالک کی 60 فیصد لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر ہراسانی کی شکایت کر دی
کیپشن: سوشل میڈیا پر بدسلوکی کے بعد ہر دس میں سے ایک لڑکی نے اپنی رائے کے اظہار کا طریقہ تبدیل کر دیا، سروے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

برلن:  دنیا بھر کی 60 فیصد لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر بدسلوکی یا ہراسانی کی شکایت کر دی۔ عالمی سروے کے مطابق 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نہ کسی قسم کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ۔ لڑکیوں پر حملے سب سے زیادہ فیس بک پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد انسٹاگرام، واٹس ایپ اور سنیپ چیٹ کا نمبر ہے۔

پلان انٹرنیشنل نامی تنظیم کی جانب سے کیے گئے سروے میں 22 ملکوں میں 15 سے 22 برس کی عمر کی 14000 لڑکیوں سے بات کی گئی۔ اس میں امریکہ، برازیل اور بھارت کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ 39 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں فیس بک پر بدسلوکی اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انسٹا گرام پر 23 فیصد، واٹس ایپ پر 14 فیصد، اسنیپ چیٹ پر 10 فیصد، ٹوئٹر پر 9 فیصد اور ٹک ٹاک پر 6 فیصد لڑکیوں کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ بدتمیزی کا رجحان عام ہے۔

بدسلوکی یا ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ہر پانچ میں سے ایک لڑکی نے سوشل میڈیا کا استعمال یا تو بند کر دیا یا اسے بہت محدود کر دیا۔ سوشل میڈیا پر بدسلوکی کے بعد ہر دس میں سے ایک لڑکی نے اپنی رائے کے اظہار کا طریقہ تبدیل کر دیا۔

سروے میں شامل 22 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ وہ یا پھر ان کی سہیلیوں نے جسمانی حملے کے خوف کی وجہ سے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

سروے میں شامل 59 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر حملے کا سب سے عمومی طریقہ توہین آمیز،غیر مہذب اور نازیبا الفاظ اور گالی گلوچ کا استعمال تھا۔ 41 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ بلاارادہ شرمندہ کرنے کے اقدامات سے متاثر ہوئیں، جب کہ'باڈی شیمنگ‘ اور جنسی تشدد کے خطرات سے متاثر ہوئیں۔ 39 فیصد نسلی اقلیتوں پر حملے، نسلی بدسلوکی اور ایل جی بی ٹی آئی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو ہراساں کرنے کی اوسط شرح بھی بہت زیادہ رہی۔

پلان انٹرنیشنل کی سی ای او اینی بریگیٹ البریکسٹن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حملے جسمانی نہیں ہوتے لیکن وہ لڑکیوں کی اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں اور ان کو محدود کر دیتے ہیں۔