بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

ہر گزرتے دن کے ساتھ جیسے جیسے معاشرے میں جدت آتی جا رہی ہے وہیں ہمارے لیے مصیبتوں کے نئے در ’وا‘ ہو رہے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں، ہماری سوچ، ہماری خواہشات، ہماری عادات اور رہن سہن نے ہی ہمیں مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا سکون، امن، چین، تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اس میں بسنے والے تمام افراد کے اخلاق و کردار کی حفاطت اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اس کے لیے مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے مختلف قوانین رائج ہیں مگر دینِ اسلام کو انسانی حقوق کے تحفظ میں سب پر برتری حاصل ہے، کیونکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیا بلکہ ان کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو سزا کا مستحق بھی قرار دیا۔ اسلام ایک کامل دین اور ابدی ضابطہ حیات ہے۔ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے عبارت ہے۔ حقوق اللہ جن کا تعلق براہ راست اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے ہے جن میں توحید، نماز، روزہ، زکوٰة، حج، شامل ہیں جبکہ دوسرا حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق جن کا تعلق براہِ راست خلقِ خدا سے ہے۔ ان حقوق میں والدین، اولاد، زوجین، رشتہ دار، یتیم، مساکین، مسافر، ہمسایہ، ملازموں اور قیدیوں کے انفرادی حقوق کے ساتھ دیگر اجتماعی اور معاشرتی حقوق بھی شامل ہیں۔ جو سبق بندوں کے حقوق کا دینِ اسلام نے سکھایا اور کر کے بتایا ایسا سبق اور عملی نمونہ دنیا کا کوئی مذہب نا دے سکا۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی درحقیقت راہِ نجات ہے۔ رسول خدا حضرت محمد مصطفیﷺ کا فرمان ہے۔ ایک مسلمان کی سب چیزیں یعنی اس کا مال، اس کی آبرو، اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔ اسلام کامل اور مکمل دین ہے اور اس کی ہمہ گیری کا یہ عالم ہے کہ یہ حیاتِ انسانی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے۔ دینِ اسلام نے ہمیں حقوق العباد کا جیسا تصور دیا ہے ایسا تصور نہ توآج تک کوئی اور دین دے سکا نا ہی دے سکتا ہے۔ پس حقیقی معنی میں مسلمان وہی ہے جو اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ نبی کریمﷺ کے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے اپنے قول و عمل سے لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی جو بے شمار مثالیں پیش کی ہیں وہ رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اسلام کے پانچ ستونوں میں آخرت بھی شامل ہے اس لیے مسلمانوں کے لیے دنیا کی زندگی کی وہ اہمیت نہیں ہے جو دنیا کے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ہے۔ اللہ رب العزت نے واضح الفاظ کے ساتھ فرما دیا، روزِ قیامت دو چیزیں معاف نہیں ہونگی ایک شرک اور دوسرا بندوں کے حقوق۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نا ٹھہراو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام، باندیوں کے ساتھ بھی اچھا برتاو کرو۔ بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں حقوق العباد کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا تقاضا دینِ اسلام ہم سے کرتا ہے۔ معمولی باتوں کے پیچھے ایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلق کر لیا جاتا ہے، ایک دوسرے کی حق تلفی یہاں اب عام بات ہے، حرام خوری اور لوٹ مار ہمارے معاشرے میںآج اپنے دورِ عروج پر ہے۔ آج کا مسلمان ظلم، نا انصافی، جبر، چوری، حسد اور ایک دوسرے کا مال غصب کرنے میں پیش پیش ہے، آج دنیا ظلم اور نا انصافی کا شکار ہو چکی ہے اور ظلم کا انجام تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ آج اللہ تعالیٰ کی طرف سے قسم قسم کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور بہت سی بستیاں ہم نے تباہ کر دیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا۔ بقول شاعر:
تیرے اعمال سے ہے تیرا پریشاں ہونا
ورنہ مشکل تو نہیں مشکل کا آساں ہونا
پورے عالم پہ حکومت ہو تیری، اے مسلم!
تو سمجھ جائے اگر اپنا مسلماں ہونا
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اخلاقی اور تہذیبی اقدار کے زوال کی سب سے بڑی وجہ حقوق العباد کو فراموش کر دینا ہے۔ حقوق اللہ میں معافی شرط ہے جبکہ حقوق العباد میں تلافی ضروری ہے۔ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی ہے، اللہ رب العزت نے اس دنیا کو یقیناً ایک خاص مقصد کے تحت بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس دنیا میں آسانیوں اور مشکلات کا ایک طویل اور مسلسل سلسلہ رکھ دیا، جو دو طرف سے انسانوں کا امتحان یعنی عمل اور ردِعمل کی جانچ کرتا رہتا ہے۔ مثلاً نعمتیں اس لیے عطا کی گئیں کہ آدمی نعمت پا کر کیا عمل کرتا ہے، محروم اس لیے رکھا گیا کہ وہ ردِ عمل میں کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سارے مفاد پرست، مردہ ضمیر عناصرکی مثالیں موجود ہیں جو صرف اور صرف اپنی جیب بھرنے کی خاطر دوسروں کی حق تلفی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں، ان کے دلوں میں خوفِ خدا ہے اور نا ہی فکرِ آخرت۔ ہمارے لوگوں نے زندگی کے معاملات میں دہرے پیمانے بنا رکھے ہیں جو اپنے مفاد کے حصول میں بہت تیز اور دوسرے کا حق ادا کرنے میں بخیل ہیں۔ ہمارا معاشرہ آج بے چینی اور پریشانیوں کا شکار ہے اور یوں ہی رہے گا جب تک ہمیں قرآن و حدیث میں بار بار دی جانے والی وعید سے ڈر نہ لگے، جب تک ہمارے معاشرے میں کمزور کی حق تلفی، بدعنوانی اور غبن جیسے سنگین جرائم میں کمی واقع نہ ہو گی، تب تک ہمارا معاشرہ یوں ہی نت نئی آفتوں، مفلسی اور پریشانیوں کا شکار رہے گا۔
یہ سچ ہے کہ مسلمان تباہی سے گھرا ہے
اک وسوسہ لا متناہی سے گھرا ہے

مصنف کے بارے میں