مجھے اپنی بلی سے پیار کیوں ہے ؟

مجھے اپنی بلی سے پیار کیوں ہے ؟

انسانوں کے  رویے سے بیزار ہو کر میں نے ایک آوارہ بلی کو اپنا لیا ۔معلوم ہوا یہ تو انسانوں سے زیادہ مہذب اور قنا عت پسند ہے ۔جو ملتا ہے اسی پر اکتفا کر لیا کرتی ہے ۔ضرورت سے زیادہ کی چاہت بھی نہیں ہے ۔بلا وجہ شور بھی نہیں مچاتی اور غیر ضروری سوالات پو چھ کر مجھے زچ بھی نہیں کرتی ۔نہ مجھ سے میری علاقائی اور صوبائی پہچان طلب کرتی ہے اور نہ ہی فرقہ واریت کے جھنجٹوں میں اُلجھاتی ہے ۔نہ مُلکی سیاست پر بے معنی تبصرہ کرتی ہے اور نہ قد آور شخصیات کی قدم بوسی کرکے اپنے معیا ر سے نیچے گر تی ہے ۔نہ اسے بجٹ کی فکر ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ٹیکس چوری کرنے کا تفکر ۔نہ مُعا شعرت تغاوت سے آشنا ہے نہ اپنی فطرت سے بے خبر۔

اس کے بر عکس ہم جس معاشرے کے مکین ہیں وہاں ہمارا دُنیاوی مالک ،ہمارے اصل مالک سے سبقت لے جانے کے لیے مستعد ہے (نعوذباللہ)۔

اُس کے قدموں میں بیٹھ کر ہم اُس کے احکامات کے نوالے وقت کے کڑوے پا نی کے ساتھ نگلنے پر مجبور ہیں اور وہ بذاتِ خود ہمارے خون پسینے کے امرت سے اپنی ہر خواہش کی تشنگی مٹانے پر آمادہ ۔مگر میری بلی اس قسم کے تمام اختراعات سے آزاد ہے ۔اس کی میاؤں میاؤں اور میرے ارد گرد بسنے والے انسانوں کی ہا ئے ہا ئے میں صرف "یقین " کا فرق ہے ۔وہ میاؤں میاؤں کر کے اپنی شکم پروری کی تمنا میرے گوش گزار کروا کر "یقین" کے سہارے ایککو نے میں جا بیٹھتی ہے ۔ 

    مگر ارد گرد بسنے والے انسان ہا ئے ہا ئے کے فلک شگاف نعروں سے سماعتوں پر اس "یقین " کے بوجھ سے ہنسنے لگتے ہیں کہ ان کے لیے کبھی کچھ اچھا نہ ہو پا ئے گا ۔

مندرجہ بالا دو "یقینوں" میں سے ایک انتہا کی بُلندی پر اوردوسرا زوال کا شکار ہے ۔جتنا وقت آج کا انسان اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے میں صرف کر دیتا ہے اُس کا 25 فی صد بھی اگر اپنے فرائض کی سُبکدوشی میں خلوصِ نیت سے صرف کر دے تو شاید "یقین" کی اس دوسری قسم کا وجود ہی با قی نہ رہے گا ۔

اب تو حالات اس قدر کشیددہ ہو چُکے ہیں کے گھر میں موجو د 12  بلیوں کی میاؤں میاؤں ،گھر میں موجود افراد کی ہائے ہائے پر طنزیہ نشتر معلوم ہوتی ہے ۔

اللہ تعالی ٰ نے انسان کو اشرفُ المخلوقات کی شکل میں اپنا نائب بنا کرعزت بخشی ۔انسانوں کے علاوہ اللہ پاک نےزمین کو جانوروں ،حشرات الارض،جنات اور آسمانوں کو فرشتوں سے سجایا۔لیکن انسانوں کی اکثریت نے اس عزت کو گنوا دیا  ۔ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ ہم نائبِ خدا کی حیثیت سے ایسی مثالیں قائم کرتے کہ دیگر مخلوقات ہم پر رشک کرتیں اور خود کو ہم سے تشبیہ دینے میں فخر محسوس کر تیں ۔لیکن ہم نے کیا کیا؟ اس کے برعکس ہم نے اُن سے خود کو تشبیہ دینے میں فخر محسوس کیا ۔اپنی بہادری کو "شیر "سے منسوب کیا ۔

عیاری کو" لو مڑی" سے، قد کی لمبائی کو" اُونٹ" سے،تیز رفتاری کو" چیتے" سے،موٹاپے کو ہا تھی سے۔اسی طرح معصومیت اور نیکو کار کو فرشتوں سے اور کئی دیگر صفات کو جنات سے جو ڑ دیا ۔قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ ہم نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہخود کو خود غرضی اور مفاد پرستی کے گڑھے میں اتنا نیچے گرا دیا کہ آسمان والے کو ہم سے جانور بہتر نظر آئے اور اُس نے فرمایاکہ " انسان جانوروں سے بھی بد تر ہو جا تا ہے "

(مفہوم)۔کیا وجہ ہے کہ عدلیہ ،انتظامیہ،قومی نمائندے،اسمبلیاں،سب کچھ ہو نے کے با وجود اس مُلک میں لو گ بھوک سے مر رہے ہیں ، کرپشن میں ہم چو تھے نمبر پر پہنچ گئے ہیں ،قر ضے کے بو جھ تلے دبے جا رہے ہیں ، بجلی ،گیس غائب ہو تی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم جانوروں سے بھی پست سطح پر پہنچ چُکے ہیں ۔ صرف حکمرانوں کو بُرا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہو گا خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایکسڈینٹ میں مرنے والوں کے گھر والوں سے پو لیس 3 سے 5 ہزار نعش لے جانے کے طلب کرتی ہے ۔

جہاں مُعاشرہ اس نہج پر پُہنچ جا ئے کہ نعمتوں پر بھی رشوت لی جا ئے وہاں جانور، فرشتےاور جنات یقیناََ خدا کا شُکر ادا  کرتے ہوں گے کہ وہ انسان نہیں ۔ تو بس میں اپنی بلی سے اسی لیے پیار کرتا ہوں کہ وہ مجھے ہر لمحہ یہ احساس دلاتی ہے کہ میں انسان ہو ں ۔

سہیل رضا تبسم کراچی کی نجی یونیورسٹی میں لکچرار ہیں،اردو میں کالم اور بلاگ بھی لکھتے ہیں   

انکا ای میل sohail_tabbassum@hotmail.com