ڈپٹی سپیکر رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی

ڈپٹی سپیکر رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا ہے کہ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ جو ہوا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے سپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی جس دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی سپیکر نے آج شام اجلاس بلایا ہے، لیکن اسمبلی کا عملہ ڈپٹی سپیکر کا حکم نہیں مان رہا، لاہور میں حالات کشیدہ ہیں، لگتا ہے آج بھی وزیراعلی کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں، عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ بظاہر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی ہے تھی مگر ووٹنگ کے دن رولنگ آ گئی، ہماری کوشش ہے کہ معاملہ جلد مکمل کیا جائے۔ 
تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظرانداز کیا جائے اور عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکم نامہ جاری کرے، کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور آواری ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ 
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ کہ نیشنل سیکورٹی کونسل اجلاس کے منٹس کدھر ہیں، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے، کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، ڈپٹی سپیکر نے رولنگ میں نتیجہ اخذ کیا ہے۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا سپیکر کو ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی معاملے پر جانے کا اختیار ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔ وکیل پی ٹی آئی بابراعوان ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمان پاک فوج نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کے اعلامیہ سے متفق ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پر کیا فیصلہ کیا؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ جن پر الزام لگایا گیا ان کیخلاف کیا ایکشن لیا گیا جس پر بابر اعوان نے بتایا کہ حکومت نے ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ وزیراعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اگر عمران خان کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے؟ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لئے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کیساتھ ہوتی رہی ہے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں، وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل بابر اعوان کے بعد صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ 
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمینٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی، عدالت بھی پارلیمینٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمینٹ میں مداخلت ہے، سپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمینٹ کو ہدایات دینا ہو گا جو غیرآئینی ہے، سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو سپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمینٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ سپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ سپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ سپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، (ن) لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمینٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں لیکن جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے، آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی، اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں، بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔

مصنف کے بارے میں