ایل این جی کیس میں ضمنی ریفرنس دائر، مزید پانچ ملزمان نامزد

ایل این جی کیس میں ضمنی ریفرنس دائر، مزید پانچ ملزمان نامزد

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو(نیب) نے ایل این جی کیس میں ضمنی ریفرنس دائر کر دیا ہے جس میں پانچ ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔

نیب راولپنڈی نے سابق وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان کے خلاف ایل این جی کیس کا ضمنی ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا۔

ضمنی ریفرنس میں شاہد خاقان کے بیٹے عبداللہ خاقان سمیت پانچ نئے ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جس کے بعد ایل این جی ریفرنس میں ملزمان کی تعداد 15 ہو گئی ہے۔ نئے نامزد ملزمان میں عبداللہ خاقان، فلپ ناٹمین، چودھری اسلم، محمد امین اور ثناصادق شامل ہیں۔

چوہدری اسلم شاہد خاقان عباسی کی ائیر لائن کے ایم ڈی ہیں جب کہ فلپ ناٹمین کو ایل این جی ٹرمینلز کے لیے کنسلٹنٹ رکھا گیا تھا۔ محمد امین سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی ہیں۔نیب نے اس سے قبل بھی ایک ریفرنس دائر کیا تھا جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دس ملزمان کو نامز کیا گیا تھا۔پہلے ریفرنس کے مطابق اس کمپنی کو مارچ 2015 سے ستمبر 2019 تک 21 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا اور 2029 تک قومی خزانے کو 47ارب روپے کا نقصان ہو گا۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے علاوہ تیل کی سرکاری کمپنی پی ایس او کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قطر کے ساتھ 15 سال کی مدت کے لیے 16 ارب ڈالر کے معاہدے کو حتمی شکل دی تھی۔اس وقت وہ وفاقی وزیر پٹرولیم تھے۔وزارت کے پٹرولیم کے دو افسران ایل این جی کیس میں اپنے سابق وزیر شاہد خاقان عباسی کیخلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔مذکورہ کیس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نیب کی حراست میں بھی رہ چکے ہیں۔ قومی احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم کو جولائی 2019 میں حراست میں لیا تھا۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل ایل این جی کیس میں ضمانت پر رہا ہیں۔

ن لیگ کے سابق دور حکومت میں اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔سابق وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا 220 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا جس میں وہ خود حصہ دار ہیں۔قبل ازیں نیب کراچی نے 19 دسمبر 2016 کوعلاقائی بورڈ کے اجلاس میں یہ کیس میرٹ پر بند کردیا تھا تاہم اس بار نیب راولپنڈی نے  دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔28 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے ایک شہری کی درخواست پر ایل این جی معاہدے کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا تھا کہ بتایا جائے قطر سے معاہدہ کرتے وقت شفافیت کو مدنظر رکھا گیا کہ نہیں۔

سپریم کورٹ میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ مہنگے داموں ایل این جی درآمد کا معاہدہ کیا گیا جس سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔