پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، میوچل لیگل اسسٹنس ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، میوچل لیگل اسسٹنس ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور
کیپشن: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میوچل لیگل اسسٹنس کریمنل میٹرز بل 2020ء کے مسودے پر اتفاق کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں میوچل لیگل اسسٹنس کریمنل میٹرز بل 2020ء پاس کر لیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بل پر اپنی ترامیم واپس لے لیں تاہم ایم ایم اے، پی کے میپ اور نیشنل پارٹی نے بل کی مخالفت کی۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے انعقاد سے قبل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میوچل لیگل اسسٹنس کریمنل میٹرز بل 2020ء کے مسودے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے بعد مشترکہ بل ایوان میں پیش کیا گیا۔

تاہم جے یو آئی، جماعت اسلامی، پی کے میپ، نیشنل پارٹی اور آزاد اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر نے بل کی سخت مخالفت کی اور بل پیش کرنے اور رائے شماری کے دوران مسلسل شور شرابا کیا۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے کلاز وائز بل منظوری کے لئے پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ نے اپنی ترمیم واپس لیتے ہوئے کہا کہ ہماری اکثر ترامیم مان لی گئی ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ بل پر ہمارے تحفظات بڑی حد تک دور ہو گئے، اس لئے اپنی ترامیم واپس لیتا ہوں۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے کا کہنا تھا کہ ہمارا پی پی پی اور ن لیگ سے اتفاق ہوا ہے۔ میوچل لیگل اسسٹنس بل سیاسی نوعیت کے معاملات پر لاگو نہیں ہوگا۔ بل پر اتفاق رائے سے کی گئی ترامیم منظوری کے لئے پیش کیں، اگر کسی معاملے میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کو نامنظور کیا جا سکے گا۔

بل کے مطابق کسی شخص کی حوالگی پاکستانی اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تو اسے حوالے نہیں کیا جا سکے گا۔ ہر چھ ماہ بعد اتھارٹی اسمبلی اور سینیٹ میں رپورٹ پیش کیا کرے گی۔

قانون کی ہر چھ ماہ بعد پارلیمانی نگرانی ضروری ہوگی۔ اس قانون کا مقصد فوجداری معاملات میں دیگر ممالک سے قانونی معاونت حاصل کرنا اور دیگر ممالک کو وہی قانونی معاونت دینا ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد پاکستان دوسرے ممالک کو قانونی معاونت فراہم کر سکے گا۔ بل کے مطابق سیکریٹری داخلہ کے پاس اختیارات ہوں گے کہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے کسی دوسرے ملک سے قانونی معاونت کے لیے درخواست بھیجنے کا اختیار، دوسرے ملک سے آئی قانونی معاونت کی درخواست کی وصولی اور اس پر عمل درآمد کا تعین کرنا، دوسرے ممالک کو شواہد کی فراہمی کی ذمہ داری اور قانونی معاونت کی درخواست کے باعث دستاویزات کی سرٹیفیکیشن کر سکے گا۔

اس قانون کے تحت پاکستان کسی دوسرے ملک یا دوسرے ملک پاکستان سے قانونی معاونت حاصل کر سکے گا جن میں گواہوں، مشکوک افراد، قصوروار یا مجرموں کی جگہ یا ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا جا سکے گا۔

دستاویزات اور شواہد کی پیشکش، کسی کیس میں تحقیقات کے لیے شواہد کی تلاش کے لیے سرچ وارنٹ کا حصول، تفتیش کے دائرہ کار میں آنے والی جائیداد کی قرقی، تفتیش یا تحقیقات کے دوران کیس میں معاونت حاصل کرنے والے شخص کو اس کی مرضی کے ساتھ پاکستان بلایا جا سکے گا یا پاکستان سے باہر اسے دوسرے ملک بھیجا جا سکے گا۔

کسی شخص کے پاس موجود الیکٹرانک معلومات جو کسی کمپیوٹر میں موجود ہوں وہ بھی فراہم کی جا سکیں گی۔ کسی شخص کی معلومات جو کسی سروس پروائڈر کے پاس ہوں انہیں بھی دوسرے ملک کے ساتھ شیئر کیا جا سکے گا۔ اس بل کے قانون بننے سے ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان کو فائدہ پہنچے گا۔

اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قرارداد پیش کی جس میں بھارتی اقدامات اور مظالم کی مذمت کی گئی اور اقوام عالم سے ان مظالم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

قرارداد میں کہا گیا کہ بھارت غیر جانبدار مبصرین اور میڈیا کو کشمیر جانے کی اجارت دے۔ حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے۔ کشمیریوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرائی جائے۔ بھارت نے ایک سال سے کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔ بھارت کے کشمیریوں پر مظالم اور قبضہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ سرچ اپریشن کے نام پر نہتے کشمیریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کشمیری قیادت کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گیارہ ہزار کشمیریوں کو شہید گیا گیا۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ اس لائن آف کنٹرول کی سال اٹھارہ سو خلاف ورزیاں کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جموں کشمیر تسلیم شدہ متنازع مسئلہ ہے۔ بھارت آئے روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ایوان میں قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔