اب قانون کے تقاضے کیوں بدل گئے

اب قانون کے تقاضے کیوں بدل گئے

سمجھ نہیں آ رہی کہ آج جب بات عمران خان پر آئی ہے تو کیسے سارے اصول اور قانون کے ضابطے اچانک تبدیل ہو گئے ہیں ۔پہلے اگر بڑے آدمی کو قانون کے مطابق سزا دلوانے سے ملک ترقی کیا کرتے تھے تو اب عمران خان کے نا اہل ہونے پر ملک پر منفی اثرات کیسے مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے جبکہ ابھی نا اہلی کے امکانات کی شروعات ہوئی ہیں تو ڈالر اور سونے کے ریٹ ریکارڈ سطح پر نیچے آ گئے ہیں ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور مقبول ترین عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلہ کے خلاف ان کے وکلاء کی نظر ثانی کی اپیلیں بھی خارج کر دی گئیں تو ایک پریس کانفرنس میں جب کسی صحافی نے جنرل ضیاء سے بھٹو صاحب کی سزا کو معاف کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا قانون سب کے لئے برابر ہے اگر میں بھٹو صاحب کی سزا معاف کرتا ہوں تو اس کیس کے دیگر مجرمان کی سزا کو بھی معاف کرنا پڑے گا ۔قارئین جب کسی کو عبرت کی مثال بنانا ہوتا ہے تو پھر ایسے ہی دلائل دیئے جاتے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کے جس بنچ نے بھٹو صاحب کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا اسی بنچ کے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے انھوں نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس کیس میں ججز پر دبائو تھا اور بھٹو صاحب کو سزائے موت کے فیصلہ سے بچایا جا سکتا تھا ۔وقت گذرتا ہے منظر بھی بدلتا ہے اب کٹہرے میں بھٹو کی بیٹی اور داماد ہیں ۔ ایک ہی دن سیکڑوں کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع تین مختلف شہروں میں پیشیاں اور ہر جج کا اصرار کہ ان کی عدالت میں ملزمان پیش کیوں نہیں ہوئے اور انتہائی رعونت سے اگلی پیشی پر ہر صورت حاضری کو یقینی بنانے کی ہدایت۔اس پر کوئی نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے بلکہ آئین اور قانون کے مامے چاچے بن کر ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ قانون کی نظر میں تو سب برابر ہیں ۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھتا ہے اور زمینی خدائوں میں سے ایک بڑا خدا کہ جس کے پاس قلم کی خدائی کا منصب تھا اور جو عدلیہ کا افتخار تھا وہ آئین پاکستان کے انتہائی واضح اور غیر مبہم آرٹیکل کی موجودگی کے باوجود بھی ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جسے قومی اسمبلی نے متفقہ وزیر اعظم کے طور پر چنا تھا اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آئین کے برخلاف صدر مملکت کے خلاف سوئس حکام کو خط لکھے لیکن جب وزیر اعظم ایسا نہیں کرتا تو اسے 58ٹو بی کی عدم موجودگی میں قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے اور ملک کے تمام با اصول باجماعت ہو کر اس فیصلہ کو آئین اور قانون کی فتح قرار دیتے ہیں اور 
ساتھ میں یہ بتانا نہیں بھولتے کہ قانون چھوٹے بڑے سب کے لئے برابر ہے ۔
وقت کچھ تھوڑا سا مزید آگے بڑھتا ہے اور ملک کا ایک اور منتخب وزیر اعظم کٹہرے پر کھڑا نظر آتا ہے ۔اس وزیر اعظم کے پاس دو تہائی اکثریت بھی رہ چکی ہے اور یہ تیسری مرتبہ ملک کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوا ہے ۔ پاناما لیکس میں کوئی ساڑھے  چار سو کے قریب لوگوں کا نام آتا ہے لیکن کسی کو نہیں پوچھا جاتا حتیٰ کہ اس مہاتما کی بھی ایک آف شور کمپنی کا نام اس میں شامل ہوتا ہے جسے اس وقت صادق اور امین قرار دیا گیا تھا لیکن کسی کو نہیں پوچھا جاتا فقط وزیر اعظم سے حساب مانگا جاتا ہے اور پھر نیب کے چکر اور جے آئی ٹی بنتی ہے اس کی رپورٹیں آتی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا پر ٹکر چلتے ہیں پرنٹ میڈیا پر شہہ سرخیاں لگتی ہیں لیکن کوشش بسیار کے بعد بھی جب کچھ نہیں ملتا تو ایک اقامہ کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔ اس دوران تمام اصول پرست ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔اس دوران عمران خان اور ان کے چاہنے والے چوبیس گھنٹے ایک ہی بات کرتے نظر آتے کہ میاں صاحب کو سزا ہونی چاہئے اور پھر ہوا بھی یہی کہ جو مطالبہ عمران خان اور ان کی جماعت کر رہی تھی اس کے عین مطابق میاں صاحب اور مریم نواز کو قید کی سزا ہو گئی اور وہ لندن واپسی پر جیل چلے گئے ۔ ا س وقت کسی کو یاد نہیں آیا کہ میاں صاحب ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں اور تین بار کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں لہٰذا انھیں نا اہل قرار دینا مناسب نہیں بلکہ اس سے بھی چار قدم آگے جا کر ان کی قید کا بھی مذاق اڑایا گیا اور عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے انتقامی سوچ پر مبنی بیانیہ کو اس حد تک ملک میں پھیلایا گیا کہ اس وقت ہر کسی کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ بڑے لوگوں کی جیل بھی کوئی جیل ہے ۔ انھیں تو جیل میں بھی ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہیں اس لئے ان سے ہر سہولت چھین لی جائے حتیٰ کہ ملک کے سابقہ وزیر اعظم کو جو سہولتیں قانون کے مطابق مل سکتی ہیں وہ حق بھی ان سے چھین لیا جائے اور میاں صاحب ، آصف علی زرداری ، مریم نواز ، فریال تالپور سمیت ملک کی جو سیاسی قیادت جیل میں تھی ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جائے ۔ 
ماضی قریب کے یہ تلخ اور ناقابل تردید زمینی حقائق ہیں کہ جنھیں کوئی جھوٹے پروپیگنڈا سے جھٹلانا چاہے بھی تو نہیں جھٹلا سکتا اور ابھی تو چند دن پہلے تک خان صاحب قوم کو بھاشن دیتے رہے ہیں کہ جن معاشروں میں انصاف نہیں ہوتا وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں اور اب یک دم عمران خان اور ان کی جماعت کی کیا بات کریں ان کے جو کٹر مخالف بھی ہیں وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول عوامی رہنما ہیں اس لئے ان پر یا ان کی جماعت پر پابندی لگانا ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا ۔ بڑی عجیب بات ہے کہ اب نہ کسی کو اصولوں کی یاد آ رہی ہے اور اور نہ ہی کسی کو آئین اور قانون کی بالادستی کا بخار کروٹیں بدلنے پر مجبور کر رہا ہے یعنی عمران خان کو واقعی سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ ان پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ ان کے خلاف اگر عدم اعتماد آئے تو لانے والے غدار ۔ان کے خلاف اگر سپریم کورٹ فیصلہ دے تو ان کا یہ جرم ناقابل معافی اور اگر آٹھ سال بعد الیکشن کمیشن ان کے خلاف فیصلہ دے تو اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ہمارے خیال میں عمران خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سے بڑے لیڈر نہیں ہیں اس لئے اگر بھٹو صاحب کو سزائے موت ، محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پابند سلاسل گذر سکتا ہے اور تین مرتبہ کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اگر تا حیات نا اہل ہو سکتے ہیں تو عمران خان کے لئے قانون کو اپنا راستہ بنانے کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جا رہی ہیں ؟

مصنف کے بارے میں