ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے!

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے!

لاہور   کی  مال روڈ کئی حوالوں سے تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد کی جاتی ہے۔متحدہ برصغیر میں جب اس کی تکمیل ہوئی تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ آنے والے دور میں تاریخی اور ثقافتی حوالے کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی اہمیت بھی ابھر کر سامنے آئے گی ۔
آٹھ کلومیٹر طویل اس شاہراہ کے دونوں جانب لہلہاتے سبز درخت طبیعت میں تازگی کے ساتھ ساتھ رومانویت کا تڑکا بھی لگا دیتے ہیں اب یہ رومانوی منظر نامہ کسی محبوبہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بھی تشکیل پا سکتا ہے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ایک انقلابی کے چہرے سے چھلکتی سرخی سے بھی۔
تحریک پاکستان کی شاہد مال روڈ جب پاکستان کا حصہ بنتی ہے تو اسے بانی پاکستان جناب حضرت قائداعظم رح کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے اور پھر ایوب کی آمریت ہو یا ضیا کا سیاہ دور،مشرفی مارشل لا کے خلاف تحریک ہو مال روڈ اس سب کا حصہ بنا ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم جلسے اور تحریکوں کا آغاز یہاں سے ہوا اور پانچ دسمبر دو ہزار سولہ کو تاریخ نے اپنے آپ کو ایک بار پھر دوہرایا اور پاکستانیوں کی آواز کو بند کرنے کے آمرانہ جابرانہ جاہلانہ فیصلے کے خلاف لاہور کے صحافی،سیاسی،سماجی طبقے نے تاریخی احتجاج کیا جس کی قیادت چیرمین نیو نیٹ ورک چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمٰن نے کی۔
پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں کروڑوں آنکھوں نے دیکھا اور گواہ بنیں کہ ادارے کا سربراہ خود کارکن صحافی کے حقوق کی پامالی کے خلاف سڑک پہ موجود تھا وہ کیا ہے نہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمٰن جن کی شخصیت کو میں ایک کرشماتی شخصیت سمجھتا ہوں ان کا اس احتجاج میں یوں سامنے آنا ایک نئی روایت ڈال گیا ہے کہاں وہ سیٹھ کلچر اور کہاں یہ کارکن کے تحفظ کے لئیے عملی اقدام ۔بہت سوں کے لئیے یہ واضح پیغام تھا بالخصوص چیئرمین پیمرا کے لئیے جن کا ٹریک ریکارڈ ہی ٹھیک نہیں ہے ملک اور ملت فروشی میں عہد حاضر کے میر صادق و جعفر ہیں ۔اس کی مثال ان کا ایک نجی ٹی وی میں بطور ڈائریکٹر نیوز وہ دور ہے جس میں ان کی وجہ سے پاک فوج کے جوان دشمنوں کے ہتھے چڑھے اور جان سے گئے وہ تو شہادت کا رتبہ پا کر امر ہو گئے لیکن یہ حضرت ابھی تک پاک فضا میں سیاہی گھول رہے ہیں ۔

نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بات تو ہر چینل کرتا ہے لیکن عملی طور پر کوئی کوئی سامنے آتا ہے ۔نیو پر پابندی کی بنیادی وجہ اگر دیکھی جائے تو بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا،کشمیریوں کے حقوق کی آواز دنیا بھر میں بذریعہ صحافتی سفارت کاری بلند کرنا اور سب سے اہم آپریشن ضرب عضب کی کوریج اور ملک دشمن عناصر جن کا تعلق پڑوسی ممالک سے ہے ان کو منظرعام پر لانا ہے۔
پیسا کمانا یقیناپروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمٰن کے لئیے بہت آسان تھا لیکن پاک سر زمین سے عشق نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا اور وہ ایک محب وطن صحافی اور سپاہی کے طور پر سامنے آئے ہیں بقول شاعر
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
نیو نیوز کے کارکنان انشااللہ چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمٰن  کی پرجوش،پر عزم قیادت میں نہ صرف متحد ہیں بلکہ ہمیشہ یہ ثابت بھی کریں گے کہ ہم آزادی صحافت کے نام نہاد علمبردار نہیں ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ جینا کیسے ہے ۔ہمیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق لینا آتا ہے ،ہم ہی ہیں جو آندھیوں کے مقابل جلاتے ہیں چراغ ہم ہی ہیں جنہیں دنیا کبھی منصور،کبھی چی گویرا،کبھی بھگت سنگھ ،کبھی دلا بھٹی اور رائے احمد خان کھرل کے نام سے جانتی ہے۔
باضمیر لوگ اپنے قائدین پہ فخر کرتے ہیں اور ہمیں پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمٰن  کی قیادت پہ نہ صرف فخر ہے بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہم پاکستانیو،کشمیریوں اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی آواز بنیں گے ۔انشااللہ

مصنف کے بارے میں

وقاص عزیز نیو کےنیوزاینکر،نوجوان شاعر اور سماجی ورکر ہیں