ٹُٹ دی نوں جگ جان دا

ٹُٹ دی نوں جگ جان دا

ایک پنجابی گیت ہے جس کا پہلا مصرع ہے
میری لگدی کسے نہ ویکھی
تے ٹُٹ دی نوں جگ جان دا
یعنی جب مجھے محبت ہوئی تو کسی نے نہ دیکھا اور جب محبت کا خاتمہ ہوا، ناتا ٹوٹا تو ساری دنیا کو پتہ چل گیا۔ وطن عزیز کی تاریخ محض اصلاحات، منصوبہ بندی اور مثبت اقدامات کی روایات اور انتظامات کی تاریخ ہوتی تو آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوتے مگر بدنصیبی سے ہماری تاریخ سانحات، سازشوں، ریشہ دوانیوں اور منفی کارستانیوں سے عبارت ہے۔ قائد اعظم کی رحلت یقینا سانحہ تھا مگر اس کے بعد سیاسی سانحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایوب خان کی آمد اور اقتدار پر قبضہ وطن عزیز میں سانحات کی بنیاد ہے اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی ان سانحات کی لپیٹ میں آ گئی۔ اگر جسٹس منیر لیٹ نہ جاتے تو قوم قدموں پہ کھڑی ہو جاتی۔ ہر آمر نے اپنی اپنی باقیات چھوڑیں، یہ صرف اقتدار کے ایوانوں میں ہی نہیں انصاف اور بیوروکریسی کی راہداریوں میں بھی ہوا۔ ہر طرف اقربا پروری، کرپشن اور لاقانونیت کے انمٹ نقوش چھوڑے گئے جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔ 1971 سے 5 جولائی 1977 تک کا دور اصلاحات، ترقی، خوشحالی کا عوامی دور تھا۔ اس کی سزا میں 4 اپریل 1979کو وطن عزیز کے سب سے بڑے رہنما کو بے گناہ سولی پر چڑھا دیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخی جدو جہد کی پیپلز پارٹی اور جمہوری جماعتوں نے لازوال قربانیاں دیں تو پھر کہیں جا کر 1988 میں ضیا الحق جو حکمرانوں کی تاریخ میں فرعون کے بعد لشکر سمیت غرق ہوا اور پھر ایک محدود، یرغمال جمہوری حکومت آئی جس کے سامنے غیر جمہوری قوتوں نے اتحاد کی صورت گری کی جس کا کریڈٹ حمید گل لیتے رہے ضیاالحق سے لے کر جنرل باجوہ تک عمران خان کی سیاسی افزائش کی گئی۔ حمید گل کی انگلی پکڑ کر آنے والے کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے بعد موقع ملا اور پھر ہم نے دیکھا کہ جنرل پاشا، ظہیر اسلام، جنرل فیض حمید، جنرل راحیل شریف اور باجوہ صاحبان نے کس طرح عمران خان کو قوم پر مسلط کیا۔ ابھی ضیا کی باقیات ختم نہ ہو پائیں کہ مشرف کی بچھائی دہشت گردی کی سرنگوں سے قوم کو گزرنا پڑا ابھی وہ سلسلہ جاری تھا کہ عمران نیازی کے اقتدار کے لیے وطن عزیز کی سرزمین کو بے آئین کر دیا گیا۔ اسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے گول چکر نے قوم کو چکرا کر رکھ دیا۔ بڑے سے بڑے سیاست دان ایک اشارے کی مار نکلے اور اس گول چکر کے چکر میں آنے کے لیے اشارے کا انتظار کرنے لگے۔ اگر اشارہ نہیں تو انگلی کھڑی ہونے کو فتح سمجھنے لگے قوم کو علم تو ہوتا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے مگر ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ قومی مفاد کے نام پر ہوتا رہا ہے۔ 2011سے اب تک یعنی عمران خان کی حکومت کے خاتمے تک محبت کی پینگوں اور اقتدار کے جھولوں،
اختیارات کی قوس و قزاؤں کا سلسلہ تھا یہ سمجھتے ہوئے کہ لوگ اندھے ہیں۔ جونہی نیازی صاحب کی حکومت سے اسٹیبلشمنٹ نے بظاہر معذرت کی تو موصوف حواس کھو بیٹھے۔ آپ ملکی سیاسی، سماجی، معاشی صورت حال ماضی اور حال کا مشاہدہ کریں آپ کو کروٹ کا سبب کوئی نہ کوئی سانحہ ہی دکھائی دے گا۔ عمران خان کا مسلط ہونا بہت بڑا سانحہ تھا جس نے ملک و قوم اور معاشرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کا عالم یہ ہے کہ ان کے بیان آپس میں، اپنے اپنے بیانات اور بیانیے ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ سب سے نازک حالت چودھری پرویز الٰہی، مونس الٰہی، شیخ رشید، فواد چودھری کی ہے البتہ اعلیٰ عدلیہ کے عہدیداروں کی طرف سے انکشافات باقی ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت یہ فریضہ ادا کر چکی کہ جھوٹ اس روانی فراوانی سے بولا گیا کہ خاموشی درست نہ رہی۔ 2011 سے خصوصاً سازشوں کا دور شروع ہوا اور عمران حکومت (وفاق) میں جانے کے بعد ان سازشوں کے انکشافات کا دور جاری ہے ان انکشافات میں
جماعت اسلامی نے سوچا کہ ہم کہیں نظر نہیں آ رہے تو سراج الحق صاحب نے انکشاف کر ڈالا کہ زرداری نے پی ٹی آئی کے خلاف ہم سے مدد مانگی تھی۔ اس انکشاف کی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ سراج الحق کہنا کیا چاہتے ہیں کہ کیا وہ بھی بساط پر تھے؟ انہوں نے کیا جواب دیا، ان کو کہیں سے کوئی اشارہ ملا کہ نہیں۔ گویا بات صرف اتنی ہے کہ گلی محلے کے بچوں کی طرح دوستی ٹوٹنے کے بعد انکشافات جاری ہیں۔ چلیں ٹرتھ کمیشن نہ سہی اس نئے انداز میں اقرار اعمال سہی۔ عمران خان اپنے ہر اقدام کو غلطی اور سادہ نہیں فاش غلطی قرار دینے لگے۔ اسمبلی تحلیل کی دھمکی اور کبھی مذاکرات کی دعوت اگر دیہات میں کوئی ایسی حرکات کرے تو لوگ اس کو کسی سیانے کو دکھائیں، یہ کہیں ”پکی تھاں“ یعنی جہاں جنات کا بسیرا تھا پیشاب کر بیٹھا ہے، ہوائی چیزیں اس کو تنگ کر رہی ہیں۔ دھمکی بھی موصوف ایسی دیتے ہیں۔ ایک آدمی کنویں میں گر گیا، پہلے تو اس نے آوازیں لگائیں مجھے بچاؤ، کوئی ہے مجھے بچاؤ، کوئی ہے مجھے بچاؤ۔ پھر گالیاں دینے لگا کہ اس وقت آؤ گے جب میں کہیں چلا جاؤں گا۔ کنویں میں گرا شخص کدھر جا سکتا ہے۔ ان کی اپنی حالت تو اس پاگل خاتون کی طرح ہو چکی جو ہر بارات پر ہنستی ناچتی آتی ہے کہ میری جنج آ گئی، میری جنج آ گئی۔ اسے ہر دولہا اس کا دولہا لگتا ہے۔ وزارت عظمیٰ اور شہباز شریف کو وزیر اعظم پکارنے پر ان کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ اپنی حکومت جانے کا الزام اتحادیوں، اسٹیبلشمنٹ سے لے کر امریکہ تک لے گئے، بس ایک بات کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کو کون کون اور کس کس طرح حکومت میں لایا اور حکومت میں ان کی کارکردگی کیا تھی یا اب 4 صوبوں میں ان کی کارکر دگی کیا ہے۔ اپنے ہر اقدام کو غلطی اور ہر ناکامی کو اسٹیبلشمنٹ کے سر باندھ رہے ہیں جبکہ سب سے مختصر اور جامع تبصرہ زرداری صاحب نے کیا کہ عمران نیازی کی بنیاد مقامی نہیں کہیں اور ہے جس پر سب حکیم سعید شہید اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی پیش گوئیوں یا دعووں کو سچ سمجھنے پر مجبور ہیں۔ عوام کا تماشا دیکھنے والوں کا اب عوام تماشا دیکھیں عمران خان کا انداز سیاست طرز ثقافت سراج الحق پر رنگ دکھانے لگا، وہ بھی انکشافات کرنے لگے۔ یہ انکشافات کا دور ہے۔ الزامات کے سچے یا جھوٹے ہونے کے اقرار کا دور ہے۔ ابھی سیاست شروع نہیں ہوئی جب شروع ہو گی تو عمران خان تیسرے نمبر نہیں آزاد امیدواروں کے بھی بعد آئیں گے اور خبروں میں موضوع بننا فلمی خبروں کے بعد ہو گا کیونکہ جھوٹ کے جواب میں سچ آئے تو موصوف موضوع بنتے ہیں اور جھوٹوں کا انکشاف جاری ہے۔
میری لگدی کسی نہ ویکھی
تے ٹُٹ دی نوں جگ جان دا