مآثر رَحیمی

مآثر رَحیمی

سیاسی وابستگیوں نے جہاں معاشرے کے دیگر شعبوں کا پراگندہ کیا ہے وہاں تخلیق و تحقیق کا عمل بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہاہے۔جو علمی و تحقیقی کام سرکاری سطح پر ہونے چاہیے تھے وہ انفرادی طور پر کیے جارہے ہیں۔ یہ تاریخ فراموشی اور تاریخی واقعات سے دانستہ چشم پوشی کانتیجہ ہے کہ تا ریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم ماضی کی غلطیاں دہراتے چلے جارہے ہیں۔
مآثر رحیمی مغل دربار کے ایک امیر بیرم خان اور ان کے صاحبزادے عبدالرحیم کے حالات و واقعات پر مشتمل ایک نادر کتاب ہے۔ بنیادی طور پر مآثر رحیمی ایک ضخیم، تفصیلی اور کم یاب فارسی کی کتاب ہے جو عبدالباقی نہاوندی کی تالیف ہے۔ منشی دیبی پرشاد نے ۱۸۷۹ء میں ”خا نخاناں نامہ“ تالیف کی تو اس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ”سنا ہے کہ خانخاناں کے حالات پر ایک کتاب لکھی گئی ہے جس کا نام مآثر رحیمی ہے۔ مگر وہ اب تک باوجود تلاش ہمارے دیکھنے میں نہیں آئی ہے“۔ مآثر رحیمی کے دو مکمل مخطوطات کلکتہ یونیورسٹی اور کیمرج یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ مآثر رحیمی کے اس ترجمے میں دونوں مخطوطات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر حسن بیگ نے فارسی سے سلیس اور رواں اردو ترجمہ بمعہ حواشی و تعلیقات اور رنگین تصاویر کے ساتھ شا ئع کیا ہے۔ جس سے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔قرآن پاک میں ”سیر و افی الارض“ کا حکم ہے اور ڈاکٹر بیگ صاحب نے اس قرآنی حکم کی بھی تعمیل کرتے ہوئے مآثر ر حیمی کی تدوین اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں کی بلکہ سال تک حواشی جمع کیے اور اس دوران ترکمانستان سے دکن تک کا سفر کیا اور تمام مقامات کو دیکھا جن کا ذکر مآثر میں آیا ہے۔ فارسی سے اردو ترجمہ سید منصور علی سہروردی مرحوم کا ہے جس پر نظرثانی دہلی یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر جناب شریف حسین قاسمی نے فرمائی ہے۔ عام طور پر فارسی کتب کے پہلے انگریزی تراجم ہوتے ہیں۔ لیکن مآثر رحیمی غالباً واحد کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ پہلے ہوا ہے۔ کیمرج یونیورسٹی میں رکھے اس نسخے پر جگہ جگہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی مہر ثبت ہے۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ انگریزوں نے برِ صغیر کی معیشت ہی کو نہیں لوٹا بلکہ اس کے علمی ذخیرے پر بھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے:۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
مآ ثر رحیمی کے مولف عبدالباقی نہاوندی بھی ان اہل ہنر میں شامل تھے جنھوں نے مغل ادوار 
میں ایران سے تلاش معاش کے لیے ہندوستان میں ہجرت کی۔ جن میں شاعر، ادیب اور ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ عبدالباقی نہاوندی کو عبدالرحیم نے تاریخ دانی کا فریضہ سونپا۔ مآثر رحیمی کے بارے میں نہاوندی کا کہنا ہے کہ اس کی تحریک انھیں عبدالرحیم کی فتوحات، ان کے دربارکی اہمیت، ان کی علمی خدمات، ان کے تعلقات اور سیاسی بصیرت سے متاثر ہو کر ملی۔ مآثر رحیمی میں عبدالرحیم کی شخصیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ان کے والد بیرم خان پر نسبتاََ کم مواد ہے۔ حالانکہ مغل سلطنت کے قیام اور استحکام میں بیرم خان کا کردار مثالی اور غیر معمولی رہا ہے۔ ہمایوں اور اکبر کی فتوحات اور اکبر کے پہلے پانچ سالہ دورِاقتدار کا مرکز بیرم خان ہی تھے۔مآثر رحیمی کو انفرادیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ عام طور پر شہنشاہ اپنی تاریخ لکھوایا کرتے تھے۔لیکن درباری امراء میں عبدالرحیم ہی منفرد ہیں کہ جنھوں نے خود کو تاریخ میں محفوظ کرنے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی آگاہی کے لیے اپنی تاریخ لکھوائی۔  
مغل بادشاہوں کے دور میں امراء کی ایک بڑی تعداد ان کے دربار سے وابستہ رہی ہے۔ لیکن امراء میں جو مقام بیرم خان کے خاندان کو حاصل ہوا ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ بیر م خان کے دادا یار علی بیگ نے ظہیر الدین بابر کے ساتھ مل کر معرکہ آرائیاں کیں جن کا ذکر بابر نامہ میں بھی موجود ہے۔ مغلوں سے اس خاندان کا تعلق بابر سے شروع ہوا اور سات نسلوں تک چلا۔ بیرم خان اورا ن کے صاحبزادے عبدالرحیم دونوں کا لقب خانِ خاناں تھا۔ خانِ خاناں کا لقب خلجی خاندان میں ۶۸۹ھ /۱۲۹۰ء سے رائج ہے۔ مگر مغلوں میں یہ لقب سب سے پہلے بابر نے دلاور خان لودھی کو ان کی خیر خواہی کے سلسلے میں دیا تھا۔لیکن اس خطاب کے حوالے سے شہرت بیرم خان اور عبدالرحیم ہی کو حاصل ہوئی۔
بیرم خان بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ وہ ایک نامور سپہ سالار، دلیر سپا ہی او ر ماہر سیاستدان ہونے کے علاوہ علم و فضل اور دانش سے بھی مالا مال تھا۔ وہ فارسی اور ترکی کا ایک بہترین اور صاحب دیوان شاعر تھا۔ مشائخ و اکابر سے خاص انسیت رکھتا تھا۔علماء و فضلاء اور اہل ہنر کی قدردانی اور ہمت افزائی کرتا تھا۔مولانا محمد حسین آزاد کے مطابق ۳۰ ہزار شمشیر زن اس کے دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے اور ۲۵ امیر اس کے ملازم تھے۔
بیرم خان کی یہ تمام خصوصیات ان کے بیٹے عبد الرحیم کو وراثت میں ملیں، جنھوں نے اپنے والدسے بڑھ کر نام کمایا۔ عبدالرحیم خانِ خاناں ہندوستانی تہذیب و تمدن کی ایک نابغہ عصر شخصیت ہیں۔ ان کو ایک سپاہی، سپہ سالار، زیرک سیاستدان، ادیب، شاعر، علوم و فنون کے دلدادہ اور سرپرست، ماہر شکاری، مقتدر شخصیات سے تعلقات اور خاص کر ہندوؤں سے مثالی تعلقات پر بلاشبہ ایک عبقری شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ عبدالرحیم خانِ خاناں کو عربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ایک مرتبہ حجاز کے بادشاہ کا ایک خط آیا۔ بادشاہ اکبر نے اس کا ترجمہ سننا چاہا تو شیخ ابوالفضل جیسے دانشمند خط کو فوری نہ پڑھ سکے کہ دن میں لغات کی مدد سے پڑھ پائیں گے۔ لیکن عبدالرحیم نے اس خط کو شمع کی روشنی اس روانی سے ترجمہ کرکے پڑ ھ کر سنایا گویاترجمہ نہیں بلکہ اصل خط اسی زبان میں پڑھ رہے ہوں۔
برِصغیر ہندو پاک میں بد قسمتی سے تاریخ کو جس قدر مسخ کیا گیا ہے اور ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ تاریخ کے حوالے سے اس قدر متضاد نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں جن کے سبب تاریخ ایک عام قاری کے لیے واقعات کے بجائے ابہام و شکوک کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر بیگ صاحب ایسے محققین اور مورخین کا وجود غنیمت ہے۔ ڈاکٹر حسن بیگ کی پیدائش دلی اور تعلیم کراچی اور برطانیہ میں ہوئی۔ ایک عرصہ سے اسکاٹ لینڈ میں مقیم ڈ اکٹر مرزا حسن علی بیگ یوں تو شعبہ کان ناک اور حلق کے ماہر سرجن ہیں لیکن تاریخ و ادب سے بھی خصوصی شغف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن بیگ نے کچھ ہی عرصہ قبل وقائع بابر کے مستند اور نئے اردو ترجمے بمعہ حواشی کا مشکل کام سرانجام دیا جسے علمی حلقوں میں قدر و تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اسی کاوش پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے انھیں فیلو شپ بھی دی ہے۔ اس کے علاوہ منشی دیبی پرشاد کی کتاب ”خانِ خاناں نامہ“ اور پروفیسر سو کمار رائے کی کتاب ”بیرم خان“ کی بھی تصحیح بمعہ حواشی تدوین کر کے شائع کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر بیگ صاحب کا نقطہ نظر ہے کہ ”بابری اخلاف کی حکومت عام طور پر خاندان مغلیہ کہلاتی ہے، یہ درست نہیں، کیونکہ بابر ترک تھا اور اپنے ترک ہونے پر فخر کرتا تھا۔ اس حکومت کو خاندان بابری کہنا چاہیے“۔ ڈاکٹر صاحب خاندان بابر کے دور ِ حکومت کو بہترین دور قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ شخصی حکومت اور بادشاہت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی تاویلیں پیش کرنے کے بجائے ان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کرتے ہیں گویا کہ معاملہ:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طر ف دار نہیں 
کا ہے۔
مآثر رحیمی کا مطالعہ تاریخ، سیاست اور سماجی علوم کے ماہرین و طلباء کے لیے نہایت مفید ہے۔ مآثر رحیمی پاکستان اور ہندوستان سے بیک وقت شائع ہوئی ہے۔ پاکستان میں الفیصل پبلشرز لاہور اور ہندوستان میں دارلمصنفین شبلی اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔سیاسی وابستگیوں نے جہاں معاشرے کے دیگر شعبوں کا پراگندہ کیا ہے وہاں تخلیق و تحقیق کا عمل بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہاہے۔جو علمی و تحقیقی کام سرکاری سطح پر ہونے چاہیے تھے وہ انفرادی طور پر کیے جارہے ہیں۔ یہ تاریخ فراموشی اور تاریخی واقعات سے دانستہ چشم پوشی کانتیجہ ہے کہ تا ریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم ماضی کی غلطیاں دہراتے چلے جارہے ہیں۔
مآثر رحیمی مغل دربار کے ایک امیر بیرم خان اور ان کے صاحبزادے عبدالرحیم کے حالات و واقعات پر مشتمل ایک نادر کتاب ہے۔ بنیادی طور پر مآثر رحیمی ایک ضخیم، تفصیلی اور کم یاب فارسی کی کتاب ہے جو عبدالباقی نہاوندی کی تالیف ہے۔ منشی دیبی پرشاد نے ۱۸۷۹ء میں ”خا نخاناں نامہ“ تالیف کی تو اس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ”سنا ہے کہ خانخاناں کے حالات پر ایک کتاب لکھی گئی ہے جس کا نام مآثر رحیمی ہے۔ مگر وہ اب تک باوجود تلاش ہمارے دیکھنے میں نہیں آئی ہے“۔ مآثر رحیمی کے دو مکمل مخطوطات کلکتہ یونیورسٹی اور کیمرج یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ مآثر رحیمی کے اس ترجمے میں دونوں مخطوطات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر حسن بیگ نے فارسی سے سلیس اور رواں اردو ترجمہ بمعہ حواشی و تعلیقات اور رنگین تصاویر کے ساتھ شا ئع کیا ہے۔ جس سے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔قرآن پاک میں ”سیر و افی الارض“ کا حکم ہے اور ڈاکٹر بیگ صاحب نے اس قرآنی حکم کی بھی تعمیل کرتے ہوئے مآثر ر حیمی کی تدوین اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں کی بلکہ سال تک حواشی جمع کیے اور اس دوران ترکمانستان سے دکن تک کا سفر کیا اور تمام مقامات کو دیکھا جن کا ذکر مآثر میں آیا ہے۔ فارسی سے اردو ترجمہ سید منصور علی سہروردی مرحوم کا ہے جس پر نظرثانی دہلی یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر جناب شریف حسین قاسمی نے فرمائی ہے۔ عام طور پر فارسی کتب کے پہلے انگریزی تراجم ہوتے ہیں۔ لیکن مآثر رحیمی غالباً واحد کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ پہلے ہوا ہے۔ کیمرج یونیورسٹی میں رکھے اس نسخے پر جگہ جگہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی مہر ثبت ہے۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ انگریزوں نے برِ صغیر کی معیشت ہی کو نہیں لوٹا بلکہ اس کے علمی ذخیرے پر بھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے:۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
مآ ثر رحیمی کے مولف عبدالباقی نہاوندی بھی ان اہل ہنر میں شامل تھے جنھوں نے مغل ادوار 
میں ایران سے تلاش معاش کے لیے ہندوستان میں ہجرت کی۔ جن میں شاعر، ادیب اور ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ عبدالباقی نہاوندی کو عبدالرحیم نے تاریخ دانی کا فریضہ سونپا۔ مآثر رحیمی کے بارے میں نہاوندی کا کہنا ہے کہ اس کی تحریک انھیں عبدالرحیم کی فتوحات، ان کے دربارکی اہمیت، ان کی علمی خدمات، ان کے تعلقات اور سیاسی بصیرت سے متاثر ہو کر ملی۔ مآثر رحیمی میں عبدالرحیم کی شخصیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ان کے والد بیرم خان پر نسبتاََ کم مواد ہے۔ حالانکہ مغل سلطنت کے قیام اور استحکام میں بیرم خان کا کردار مثالی اور غیر معمولی رہا ہے۔ ہمایوں اور اکبر کی فتوحات اور اکبر کے پہلے پانچ سالہ دورِاقتدار کا مرکز بیرم خان ہی تھے۔مآثر رحیمی کو انفرادیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ عام طور پر شہنشاہ اپنی تاریخ لکھوایا کرتے تھے۔لیکن درباری امراء میں عبدالرحیم ہی منفرد ہیں کہ جنھوں نے خود کو تاریخ میں محفوظ کرنے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی آگاہی کے لیے اپنی تاریخ لکھوائی۔  
مغل بادشاہوں کے دور میں امراء کی ایک بڑی تعداد ان کے دربار سے وابستہ رہی ہے۔ لیکن امراء میں جو مقام بیرم خان کے خاندان کو حاصل ہوا ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ بیر م خان کے دادا یار علی بیگ نے ظہیر الدین بابر کے ساتھ مل کر معرکہ آرائیاں کیں جن کا ذکر بابر نامہ میں بھی موجود ہے۔ مغلوں سے اس خاندان کا تعلق بابر سے شروع ہوا اور سات نسلوں تک چلا۔ بیرم خان اورا ن کے صاحبزادے عبدالرحیم دونوں کا لقب خانِ خاناں تھا۔ خانِ خاناں کا لقب خلجی خاندان میں ۶۸۹ھ /۱۲۹۰ء سے رائج ہے۔ مگر مغلوں میں یہ لقب سب سے پہلے بابر نے دلاور خان لودھی کو ان کی خیر خواہی کے سلسلے میں دیا تھا۔لیکن اس خطاب کے حوالے سے شہرت بیرم خان اور عبدالرحیم ہی کو حاصل ہوئی۔
بیرم خان بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ وہ ایک نامور سپہ سالار، دلیر سپا ہی او ر ماہر سیاستدان ہونے کے علاوہ علم و فضل اور دانش سے بھی مالا مال تھا۔ وہ فارسی اور ترکی کا ایک بہترین اور صاحب دیوان شاعر تھا۔ مشائخ و اکابر سے خاص انسیت رکھتا تھا۔علماء و فضلاء اور اہل ہنر کی قدردانی اور ہمت افزائی کرتا تھا۔مولانا محمد حسین آزاد کے مطابق ۳۰ ہزار شمشیر زن اس کے دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے اور ۲۵ امیر اس کے ملازم تھے۔
بیرم خان کی یہ تمام خصوصیات ان کے بیٹے عبد الرحیم کو وراثت میں ملیں، جنھوں نے اپنے والدسے بڑھ کر نام کمایا۔ عبدالرحیم خانِ خاناں ہندوستانی تہذیب و تمدن کی ایک نابغہ عصر شخصیت ہیں۔ ان کو ایک سپاہی، سپہ سالار، زیرک سیاستدان، ادیب، شاعر، علوم و فنون کے دلدادہ اور سرپرست، ماہر شکاری، مقتدر شخصیات سے تعلقات اور خاص کر ہندوؤں سے مثالی تعلقات پر بلاشبہ ایک عبقری شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ عبدالرحیم خانِ خاناں کو عربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ایک مرتبہ حجاز کے بادشاہ کا ایک خط آیا۔ بادشاہ اکبر نے اس کا ترجمہ سننا چاہا تو شیخ ابوالفضل جیسے دانشمند خط کو فوری نہ پڑھ سکے کہ دن میں لغات کی مدد سے پڑھ پائیں گے۔ لیکن عبدالرحیم نے اس خط کو شمع کی روشنی اس روانی سے ترجمہ کرکے پڑ ھ کر سنایا گویاترجمہ نہیں بلکہ اصل خط اسی زبان میں پڑھ رہے ہوں۔
برِصغیر ہندو پاک میں بد قسمتی سے تاریخ کو جس قدر مسخ کیا گیا ہے اور ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ تاریخ کے حوالے سے اس قدر متضاد نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں جن کے سبب تاریخ ایک عام قاری کے لیے واقعات کے بجائے ابہام و شکوک کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر بیگ صاحب ایسے محققین اور مورخین کا وجود غنیمت ہے۔ ڈاکٹر حسن بیگ کی پیدائش دلی اور تعلیم کراچی اور برطانیہ میں ہوئی۔ ایک عرصہ سے اسکاٹ لینڈ میں مقیم ڈ اکٹر مرزا حسن علی بیگ یوں تو شعبہ کان ناک اور حلق کے ماہر سرجن ہیں لیکن تاریخ و ادب سے بھی خصوصی شغف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن بیگ نے کچھ ہی عرصہ قبل وقائع بابر کے مستند اور نئے اردو ترجمے بمعہ حواشی کا مشکل کام سرانجام دیا جسے علمی حلقوں میں قدر و تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اسی کاوش پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے انھیں فیلو شپ بھی دی ہے۔ اس کے علاوہ منشی دیبی پرشاد کی کتاب ”خانِ خاناں نامہ“ اور پروفیسر سو کمار رائے کی کتاب ”بیرم خان“ کی بھی تصحیح بمعہ حواشی تدوین کر کے شائع کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر بیگ صاحب کا نقطہ نظر ہے کہ ”بابری اخلاف کی حکومت عام طور پر خاندان مغلیہ کہلاتی ہے، یہ درست نہیں، کیونکہ بابر ترک تھا اور اپنے ترک ہونے پر فخر کرتا تھا۔ اس حکومت کو خاندان بابری کہنا چاہیے“۔ ڈاکٹر صاحب خاندان بابر کے دور ِ حکومت کو بہترین دور قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ شخصی حکومت اور بادشاہت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی تاویلیں پیش کرنے کے بجائے ان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کرتے ہیں گویا کہ معاملہ:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طر ف دار نہیں 
کا ہے۔
مآثر رحیمی کا مطالعہ تاریخ، سیاست اور سماجی علوم کے ماہرین و طلباء کے لیے نہایت مفید ہے۔ مآثر رحیمی پاکستان اور ہندوستان سے بیک وقت شائع ہوئی ہے۔ پاکستان میں الفیصل پبلشرز لاہور اور ہندوستان میں دارلمصنفین شبلی اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔سیاسی وابستگیوں نے جہاں معاشرے کے دیگر شعبوں کا پراگندہ کیا ہے وہاں تخلیق و تحقیق کا عمل بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہاہے۔جو علمی و تحقیقی کام سرکاری سطح پر ہونے چاہیے تھے وہ انفرادی طور پر کیے جارہے ہیں۔ یہ تاریخ فراموشی اور تاریخی واقعات سے دانستہ چشم پوشی کانتیجہ ہے کہ تا ریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم ماضی کی غلطیاں دہراتے چلے جارہے ہیں۔
مآثر رحیمی مغل دربار کے ایک امیر بیرم خان اور ان کے صاحبزادے عبدالرحیم کے حالات و واقعات پر مشتمل ایک نادر کتاب ہے۔ بنیادی طور پر مآثر رحیمی ایک ضخیم، تفصیلی اور کم یاب فارسی کی کتاب ہے جو عبدالباقی نہاوندی کی تالیف ہے۔ منشی دیبی پرشاد نے ۱۸۷۹ء میں ”خا نخاناں نامہ“ تالیف کی تو اس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ”سنا ہے کہ خانخاناں کے حالات پر ایک کتاب لکھی گئی ہے جس کا نام مآثر رحیمی ہے۔ مگر وہ اب تک باوجود تلاش ہمارے دیکھنے میں نہیں آئی ہے“۔ مآثر رحیمی کے دو مکمل مخطوطات کلکتہ یونیورسٹی اور کیمرج یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ مآثر رحیمی کے اس ترجمے میں دونوں مخطوطات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر حسن بیگ نے فارسی سے سلیس اور رواں اردو ترجمہ بمعہ حواشی و تعلیقات اور رنگین تصاویر کے ساتھ شا ئع کیا ہے۔ جس سے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔قرآن پاک میں ”سیر و افی الارض“ کا حکم ہے اور ڈاکٹر بیگ صاحب نے اس قرآنی حکم کی بھی تعمیل کرتے ہوئے مآثر ر حیمی کی تدوین اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں کی بلکہ سال تک حواشی جمع کیے اور اس دوران ترکمانستان سے دکن تک کا سفر کیا اور تمام مقامات کو دیکھا جن کا ذکر مآثر میں آیا ہے۔ فارسی سے اردو ترجمہ سید منصور علی سہروردی مرحوم کا ہے جس پر نظرثانی دہلی یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر جناب شریف حسین قاسمی نے فرمائی ہے۔ عام طور پر فارسی کتب کے پہلے انگریزی تراجم ہوتے ہیں۔ لیکن مآثر رحیمی غالباً واحد کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ پہلے ہوا ہے۔ کیمرج یونیورسٹی میں رکھے اس نسخے پر جگہ جگہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی مہر ثبت ہے۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ انگریزوں نے برِ صغیر کی معیشت ہی کو نہیں لوٹا بلکہ اس کے علمی ذخیرے پر بھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے:۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
مآ ثر رحیمی کے مولف عبدالباقی نہاوندی بھی ان اہل ہنر میں شامل تھے جنھوں نے مغل ادوار 
میں ایران سے تلاش معاش کے لیے ہندوستان میں ہجرت کی۔ جن میں شاعر، ادیب اور ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ عبدالباقی نہاوندی کو عبدالرحیم نے تاریخ دانی کا فریضہ سونپا۔ مآثر رحیمی کے بارے میں نہاوندی کا کہنا ہے کہ اس کی تحریک انھیں عبدالرحیم کی فتوحات، ان کے دربارکی اہمیت، ان کی علمی خدمات، ان کے تعلقات اور سیاسی بصیرت سے متاثر ہو کر ملی۔ مآثر رحیمی میں عبدالرحیم کی شخصیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ان کے والد بیرم خان پر نسبتاََ کم مواد ہے۔ حالانکہ مغل سلطنت کے قیام اور استحکام میں بیرم خان کا کردار مثالی اور غیر معمولی رہا ہے۔ ہمایوں اور اکبر کی فتوحات اور اکبر کے پہلے پانچ سالہ دورِاقتدار کا مرکز بیرم خان ہی تھے۔مآثر رحیمی کو انفرادیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ عام طور پر شہنشاہ اپنی تاریخ لکھوایا کرتے تھے۔لیکن درباری امراء میں عبدالرحیم ہی منفرد ہیں کہ جنھوں نے خود کو تاریخ میں محفوظ کرنے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی آگاہی کے لیے اپنی تاریخ لکھوائی۔  
مغل بادشاہوں کے دور میں امراء کی ایک بڑی تعداد ان کے دربار سے وابستہ رہی ہے۔ لیکن امراء میں جو مقام بیرم خان کے خاندان کو حاصل ہوا ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ بیر م خان کے دادا یار علی بیگ نے ظہیر الدین بابر کے ساتھ مل کر معرکہ آرائیاں کیں جن کا ذکر بابر نامہ میں بھی موجود ہے۔ مغلوں سے اس خاندان کا تعلق بابر سے شروع ہوا اور سات نسلوں تک چلا۔ بیرم خان اورا ن کے صاحبزادے عبدالرحیم دونوں کا لقب خانِ خاناں تھا۔ خانِ خاناں کا لقب خلجی خاندان میں ۶۸۹ھ /۱۲۹۰ء سے رائج ہے۔ مگر مغلوں میں یہ لقب سب سے پہلے بابر نے دلاور خان لودھی کو ان کی خیر خواہی کے سلسلے میں دیا تھا۔لیکن اس خطاب کے حوالے سے شہرت بیرم خان اور عبدالرحیم ہی کو حاصل ہوئی۔
بیرم خان بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ وہ ایک نامور سپہ سالار، دلیر سپا ہی او ر ماہر سیاستدان ہونے کے علاوہ علم و فضل اور دانش سے بھی مالا مال تھا۔ وہ فارسی اور ترکی کا ایک بہترین اور صاحب دیوان شاعر تھا۔ مشائخ و اکابر سے خاص انسیت رکھتا تھا۔علماء و فضلاء اور اہل ہنر کی قدردانی اور ہمت افزائی کرتا تھا۔مولانا محمد حسین آزاد کے مطابق ۳۰ ہزار شمشیر زن اس کے دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے اور ۲۵ امیر اس کے ملازم تھے۔
بیرم خان کی یہ تمام خصوصیات ان کے بیٹے عبد الرحیم کو وراثت میں ملیں، جنھوں نے اپنے والدسے بڑھ کر نام کمایا۔ عبدالرحیم خانِ خاناں ہندوستانی تہذیب و تمدن کی ایک نابغہ عصر شخصیت ہیں۔ ان کو ایک سپاہی، سپہ سالار، زیرک سیاستدان، ادیب، شاعر، علوم و فنون کے دلدادہ اور سرپرست، ماہر شکاری، مقتدر شخصیات سے تعلقات اور خاص کر ہندوؤں سے مثالی تعلقات پر بلاشبہ ایک عبقری شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ عبدالرحیم خانِ خاناں کو عربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ایک مرتبہ حجاز کے بادشاہ کا ایک خط آیا۔ بادشاہ اکبر نے اس کا ترجمہ سننا چاہا تو شیخ ابوالفضل جیسے دانشمند خط کو فوری نہ پڑھ سکے کہ دن میں لغات کی مدد سے پڑھ پائیں گے۔ لیکن عبدالرحیم نے اس خط کو شمع کی روشنی اس روانی سے ترجمہ کرکے پڑ ھ کر سنایا گویاترجمہ نہیں بلکہ اصل خط اسی زبان میں پڑھ رہے ہوں۔
برِصغیر ہندو پاک میں بد قسمتی سے تاریخ کو جس قدر مسخ کیا گیا ہے اور ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ تاریخ کے حوالے سے اس قدر متضاد نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں جن کے سبب تاریخ ایک عام قاری کے لیے واقعات کے بجائے ابہام و شکوک کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر بیگ صاحب ایسے محققین اور مورخین کا وجود غنیمت ہے۔ ڈاکٹر حسن بیگ کی پیدائش دلی اور تعلیم کراچی اور برطانیہ میں ہوئی۔ ایک عرصہ سے اسکاٹ لینڈ میں مقیم ڈ اکٹر مرزا حسن علی بیگ یوں تو شعبہ کان ناک اور حلق کے ماہر سرجن ہیں لیکن تاریخ و ادب سے بھی خصوصی شغف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن بیگ نے کچھ ہی عرصہ قبل وقائع بابر کے مستند اور نئے اردو ترجمے بمعہ حواشی کا مشکل کام سرانجام دیا جسے علمی حلقوں میں قدر و تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اسی کاوش پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے انھیں فیلو شپ بھی دی ہے۔ اس کے علاوہ منشی دیبی پرشاد کی کتاب ”خانِ خاناں نامہ“ اور پروفیسر سو کمار رائے کی کتاب ”بیرم خان“ کی بھی تصحیح بمعہ حواشی تدوین کر کے شائع کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر بیگ صاحب کا نقطہ نظر ہے کہ ”بابری اخلاف کی حکومت عام طور پر خاندان مغلیہ کہلاتی ہے، یہ درست نہیں، کیونکہ بابر ترک تھا اور اپنے ترک ہونے پر فخر کرتا تھا۔ اس حکومت کو خاندان بابری کہنا چاہیے“۔ ڈاکٹر صاحب خاندان بابر کے دور ِ حکومت کو بہترین دور قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ شخصی حکومت اور بادشاہت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی تاویلیں پیش کرنے کے بجائے ان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کرتے ہیں گویا کہ معاملہ:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طر ف دار نہیں 
کا ہے۔
مآثر رحیمی کا مطالعہ تاریخ، سیاست اور سماجی علوم کے ماہرین و طلباء کے لیے نہایت مفید ہے۔ مآثر رحیمی پاکستان اور ہندوستان سے بیک وقت شائع ہوئی ہے۔ پاکستان میں الفیصل پبلشرز لاہور اور ہندوستان میں دارلمصنفین شبلی اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔