جدید میلے۔ قدیم میلے اورنئی نسل

جدید میلے۔ قدیم میلے اورنئی نسل

”آپ نے کبھی میلہ اجڑتے دیکھا؟“میں استاد کمر کمانی کے اس سوال پر حیران ہو گیا…… سیدھی سادھی زندگی، جدید دور تانگے چھکڑے کی جگہ مشکل مشکل ناموں والی بہت بڑی بڑی گاڑیاں، آسمان سے باتیں کرتے پلازے جن کے نیچے پارکنگ موجود نہیں، کیونکہ صرف کار پارکنگ کے لیے دس دس بارہ بارہ منزلہ پلازے بنانا پڑ رہے ہیں، کاروں کی میلوں لمبی قطاریں …… بچے کم کمرے زیادہ،نو کرزیادہ گھر والے کم ……کبھی انسان دس گھنٹے سوتا تھا…… اب انسان دس گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھتا ہے اور دس گھنٹے کمپیوٹر پر…… باقی وقت لڑائی جھگڑوں پر صرف ہو جاتا ہے یا ایسی لڑائیوں جھگڑوں کی صلح صفائی کرانے پر۔ یہ کمپیوٹر ایج ہے، اس کے اپنے تقاضے ہیں، اپنے مزے ہیں، کہتے ہیں طلاق کی شرح میں اضافہ کا باعث کمپیوٹر ہے یا موبائل فون؟
”استاد جی! میلہ لٹ جانے کی بابت اخبارات میں کہانیاں قصے پڑھے ہیں …… اجڑنے کے حوالے سے دہلی شہر سنا ہے کئی بارا جڑا ہے یا ہلاکو خان چنگیز خان نے بغداد شہر کو اجاڑا تھا اور اب امریکی افواج یہ سفاکانہ ذمہ داری پوری کر رہی ہیں۔
”ارے احمق شخص!میلہ لگتا ہے…… یہ بڑا خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیاں لوگ بہت سے ساز وسامان کے ساتھ آتے ہیں۔ ہاتھی، گھوڑا، بکری اور ڈانسریں اِک ساتھ…… میلہ سجایا جاتا ہے…… ڈانسر البتہ عین وقت پر تشریف لاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتے…… ایک ایک ’موت کے کنوئیں‘ پر دس دس ڈانسر…… پاکستان کے ایک کونے سے میلے لگنا شروع ہوتے ہیں اور دوسرے کونے تک سارا سال چلتے ہیں …… دیہات میں میلہ نہ لگے تو لوگ بیمار ہو جائیں۔ میلوں میں ’لڑائی والے لڈو‘ نہ ملیں تو دیہاتی مٹھائی کہاں سے کھائیں؟…… یہ لڑائی والے لڈو اس قدر میٹھے ہوتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے بھی کھانے سے ڈرتے ہیں۔ اگر چیونٹی غلطی سے اس لڈو کو منہ مارے تو اسے کسی قریبی ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں داخل کرانا پڑ جائے پھر بھی اس کی موت کی خبر یقینی ہوگی…… لڈو کھانے سے کئی لوگوں کے کمزور دانت ٹوٹ چکے ہیں۔ جلیبیاں بھی میلوں میں بطور سویٹ ڈش استعمال ہوتی ہیں اور ان میلوں میں ایک آدمی کم از کم ایک کلو جلیبیاں کھاتا ہے۔ اگر اس کے بعد اس نے با قاعدہ لنچ یا ڈنر نہ کرتا ہو تو نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے۔میلوں کی سب سے بڑی ’تفریح‘،’موت کے کنوئیں‘، ’موت کا گولہ‘ اور سرکس پر ہونے والے ڈانس ہیں …… یہ ڈانس کان پھاڑ دینے والی آواز کے ساتھ خوفناک میوزک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، ہیجڑے اپنے گرو کے زیر سایہ ناچتے ہیں۔ اگر زمین ذراسی نرم ہو تو ادھر وہ ڈانس ختم کرتے ہیں، ادھر زمین سے پانی نکل آتا ہے…… میلہ ختم ہونے سے دو تین گھنٹے پہلے آپ پوچھیں کہ چنبیلی اور بلبل ڈانسر کہاں ہیں تو ان کی گرو بتائے گی کہ وہ دونوں بذریعہ خیبر میل بوگی نمبر تین کی سیٹ نمبر گیارہ بارہ پر بیٹھ کر صادق آباد روانہ ہو چکی اور مسلسل مجھ سے رابطہ میں ہیں۔ جہاں میلہ لگنے سے پہلے پہلے انھیں انٹرویو کے لیے پیش ہونا ہے اور چونکہ
امیدواروں کا بہت رش ہے اس لیے وہ ”رسک“ نہیں لے سکتے تھے۔ حالانکہ انھیں اس کے لیے منیجر غفور پر دیسی سے ابھی اپنا اس میلے کا حساب کتاب بے باک کرنا تھا اور غفور پر دیسی کی بے ایمانی پاکستان بھر کے میلوں میں مشہور ہے۔ اس نے ان غریب فنکاروں کا خون چوس چوس کر با قاعدہ اپنا ایک نیا سر کس بنالیا ہے جس میں وہ بے ایمان کبھی کبھی خود ہی شیر کی کھال پہن کر حاضرین کو ڈراتا ہے۔ اگر اس کا پیٹ ڈیڑھ دو فٹ باہر نہ نکلا ہو تو شاید وہ چنبیلی اور بلبل کی جگہ بھی خود ہی پیش ہو جائے۔ ویسے غفور پردیسی کی پہلے ہفتے بلبل سے منگنی ہونا قرار پائی ہے۔
میلے اور ان کے ساتھ لگے بازار بیمار اور بیماروں کا علاج کرنے والے ’ہر فن مولا‘ کر تب دکھانے والے نجومی، انڈے لڑانے والے، مرغ لڑانے والے، چکور لڑانے والے سب موجود ہوتے ہیں۔ کسی نے بچہ کندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ کسی نے بکری کندھے پر اٹھا رکھی ہے تو کوئی پھر پھر کے تھک چکا ہے، گر جانا چاہتا ہے۔ پولیس کے دو سپاہی ایک میلے کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ایک ایک جیب کترا دس دس بار پکڑا اور چھوڑا جاتا ہے اور آخری دن وہ دو پولیس والوں سے اجازت لے کر اگلے میلے کی طرف چل پڑتا ہے۔ یہ دو پولیس والے ہر موڑ پر اپنی عدالت لگاتے ہیں۔ وہیں فیصلہ سناتے ہیں۔ کہیں چور کو سز اسنا دیتے ہیں تو کہیں شکایت کرنے والے کو دھر لیتے ہیں۔ ان میلوں میں ہی آپ کو پتا چلتا ہے کہ اس سال دیہات میں پچاس نئے گلو کاروں نے اپنے فن کے زور پر میدان گلوکاری میں قدم رکھا۔ ان کے گائے ہوئے گیت میلوں میں زبان زد خاص و عام ہو جاتے ہیں۔ جہاں کتوں کی لڑائی ہوتی ہے، گالی گلوچ آزادانہ چلتی ہے، وہیں ان نئے گلوکاروں کے گیت بھی چلتے ہیں اور ایک آدمی مقامی زبان میں کمنٹری بھی کر رہا ہوتا ہے۔ شکر ہے وہاں سنسر بورڈ کا نمائندہ نہیں ہوتا ورنہ وہ اس کمنٹری پر پوری قوت کے ساتھ فوری پابندی لگا دے اور کمنٹری کرنے والے کو پچاس سال قید سنادی جائے۔ ایک ہزار کوڑوں کی سزا اس کے علاوہ۔ کتوں کو اگر کمنٹری کرنے والے کی باتیں سمجھ آجائیں تو وہ بطور احتجاج لڑنا چھوڑ دیں، ڈوب مرنے کو ترجیح دیں کسی جوہڑ کے گندے پانی میں یہ منی کرنے والا اصل میں ایک کتے کا مالک ہوتا ہے۔ دوسرے ہاف میں دوسرے کتے کا مالک کمنٹری کے فرائض سر انجام دیتا ہے اور کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ اصل میں یہ دونوں سگے بھائی ہیں اور انگریزی کشتیاں لڑنے والوں سے یہ تربیت بھی لے چکے ہوتے ہیں جو لڑائی کے بعد کسی فائیو سٹار میں ایک ہی ٹیبل پر سوپ پیتے ہیں اور ہنس ہنس کر لطیفے سناتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہیں کہ پبلک کو انجوائے بھی کرایا، لاکھوں ڈالر بھی کمائے، جو کل خوشی خوشی جوئے میں ہار کرنئی کشتی کی تیاری شروع۔ ایک آدھ نیا بد معاش بھی ان میلوں میں متعارف ہوتا ہے۔
میلہ لگتا ہے جیسے نیا شہر بس گیا ہو اور جب شہر بے آباد ہوں اور دشمن داری نہ ہو یہ ناممکن ہے…… خانیوال کے پیر وال جنگل کے پاس ایک میلے میں بنفس نفیس موجود تھا، رات تھی اور اعلان ہوا کہ اب مشہور لوک فنکار گائے گا محفل کو مزید گرمائے گا کہ دشمن نے میلے میں تین سانپ چھوڑ دیے۔ بھگدڑ مچ گئی۔ شاید لوگ یقین نہ کرتے مگر ایک سانپ پر کمپیئر کی نظر بھی پڑ گئی۔ خوفناک کانپتی آواز کے ساتھ کمپیئر نے بلبل اور چنبیلی کی طرح اچھلتے ہوئے، اداؤں کے ساتھ، دلر بائی سمیٹے ہوئے اعلان کر دیا……”دوستو…… سانپ خان…… گائے گا……“
”سانپ خان۔ مر گیا۔ ہائے“
سب سے پہلے جن کی وجہ سے میلہ تتر بتر ہوا وہ الیکٹریشن تھے جنھوں نے ٹرالیوں پر ”پاور ہاؤس“ لگا کر اپنی بنائی ہوئی بجلی کو شاید خود ہی ہلا جلا دیا۔ کھیتوں کھلیانوں میں بھاگتے فنکار، اوندھے منہ گرتے…… شوقین…… بھگدڑ اس قدر بے ہنگم…… مجھے یاد آیا بھگدڑ تو ہوتی ہی بے ہنگم ہے…… کہ شاید تینوں سانپ شائقین کے پاؤں تلے آکر کچلے جاچکے ہوں …… جب دو گھنٹے بعد انتظامیہ کی مدد سے بجلی بحال ہوئی تو عجب منظر تھا…… پکوڑیوں کے تھال میں مری ہوئی مرغی پڑی تھی، کتے ڈر کے مارے ایک دکاندار کا بڑا سانوٹوں والا ”غلہ“ منہ میں تھامے سہمے کھڑے تھے…… لڑنے کی سکت نہ بھونکنے کی ہمت…… انتظامیہ جو دل چاہے کھاتی پھر رہی تھی…… ایک صاحب نے جلیبی اٹھا کرمنہ میں ڈالی…… اگلے لمحے جلیبی سڑک پر اور سر پکڑ کے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ سب تلپٹ تھا۔ ہوکا عالم۔ ایسا خوفناک قسم کے شور شرابے کے بعد ضرور ہوتا ہے۔
اکثر اوقات میلہ اجڑنے کی وجہ اچانک آجانے والی اندھیری اور خوفناک بارش ہوتی ہے۔ جو کیچڑ مچتا ہے ”خدا کی پناہ!“
غریب امیر…… آقا غلام سب بارش میں بھیگتے…… بے یارو مددگار پناہ کی تلاش میں بھاگتے پھرتے ہیں …… سب سے بری حالت ان ڈانس کرنے والے بے چاریوں کی ہوتی ہے……
جی……آپ نے کیا فرمایا، تھکاوٹ…… وہ ان میلوں پر ناچنے ’والوں یا والیوں‘ کو نہیں ہوتی۔ وہ لگا تار بہتر گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ ناچ سکتے ہیں …… بس جب کیسٹ ختم ہو تو وقفہ آتا ہے، ور نہ چل سو چل …… یہ ڈانسر صاحبہ میلوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ناچ ناچ کر بوڑھے ہوتے ہیں اور وہیں کسی خیمے میں فوت ہو جاتے ہیں یا کسی نا کام عشق کی بدولت خود کشی یا عاشق کے اپنے ہاتھوں قتل یا پھر لاہور کی ہیرا منڈی میں ”باعزت“ واپسی۔
ہم نے اپنی ہوش میں کئی بارسیاسی میلے بھی اجڑتے دیکھے ہیں …… ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور
میلہ اجڑے گا……؟ میلہ کس شکل میں چلے گا؟ خان نے اک طویل بلکہ طوفانی دورہ کیا لاہور اسلام آباد کا…… جہاں درمیان میں وزیر آباد بھی آیا…… لیڈر زخمی ہوا…… معاملہ کافی بلندی تک گیا مگر ”بابا“ کی آمد…… پھر نئی صورتحال…… نئے راستے …… منزل نامعلوم سب سے اہم بلکہ بڑا ہی کمال کا رول پلے کیا جناب پرویز الٰہی کہا میں بھی اس بار تو تین دفعہ گھبرایا کہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب اس قدر کمال ”پلے“ کر گئے۔ ایک دن تو میری چھوٹی انگلی دانتوں میں آکر کٹ گئی…… اور پھر صدر مملکت نے کاغذ Sign کیا آرمی چیف کی تعینات کا اور لے کر چلے گئے زمان پارک…… یار خان…… میں Sign کر چکا ہوں …… آپ کہہ دینا ”مشاورت کرنے آیا تھا……؟!“ اس دن سے میلہ اجڑتا دکھائی دے رہا ہے…… خان کی حالت قسمے دن بدن پتلی ہو رہی ہے…… میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی خان کی محبت میں پندرہ بیس منٹ کے لیے P.T.I جوائن کر لوں؟