ایران کی سب سے قابل اعتماد فورس میں بھی اسرائیلی جاسوسوں کا انکشاف،برطانوی میڈیا کا دعویٰ 

Iran Israel, Mossad, Iran forces

تہران :ایران کی  سب سے خطرناک فورس میں بھی اسرائیلی جاسوسوں کے دعوے نے ہر طرف تھر تھلی مچا دی ،یہ خبر اس وقت نکل کر سامنے آئی جب ایران کے انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی نے بھی یہ دعویٰ کا کہ جس مقام پر محسن فخری زادہ کو گولیاں ماری گئی تھیں اس مقام کی نشاندہی دو ماہ قبل ہی کر دی گئی تھی ۔

ایرانی انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی نے مزید بتایا کہ کہ قتل کی منصوبہ بندی کرنے والا شخص  مسلح افواج کا رکن تھا اور ہم مسلح افواج کے خلاف انٹیلیجنس آپریشن نہیں کر سکتے تھےلیکن انھوں نے یہ اشارہ دیا کہ مجرم، ایران کی سب سے اعلیٰ فوجی یونٹ پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کا رکن تھا۔ اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ ایجنٹ آئی آر جی سی میں کافی اونچے عہدے پر فائز ہو گا تبھی وارننگ کے باوجود وہ مقررہ تاریخ، وقت اور مقام پر محسن فخری زادہ کے قتل کے منصوبے کو انجام دینے کے قابل ہوا۔

تہران میں ایوین جیل سکیورٹی کا وہ وارڈ  جہاں ایسے مجرموں کو رکھا جاتا ہے جن پر دوسرے ممالک کے لیے جاسوسی کا الزام ہو، اس کے اندر موجود ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہاں آئی آر جی سی کے کئی اعلیٰ کمانڈر قید ہیں،ایرانی حکومت، پاسداران انقلاب کی ساکھ کو بچانے کے لیے ان افراد کے ناموں اور عہدوں کی تشہیر نہیں کرتی۔

بی بی سی کی طرف سے جاری رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ جنوری 2018 میں بھی چند نامعلوم افراد نے تہران میں بڑی کامیاب ڈکیتی کی تھی جہاں سے انہوں نے ایک گودام  میں موجود 32 کے قریب تجوریوں میں سے 27 تجوریوں کے تالے توڑے تھے ،اور انہیں معلوم تھا کہ ان ہی تجوریوں میں وہ تمام معلومات،سی ڈیز اور نقشے انہیں ملیں گے ۔

رپورٹ کے مطابق تہران کی اس بڑی ڈکیتی کی خاص بات یہ تھی کہ جو چیزیں ان تجوریوں سے چڑائی گئی تھیں ان میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات تھیں جو صرف تین ماہ بعد ہی اسرائیل کے شہر تیل ابیب میں منظر عام پر لائی گئی تھیں ۔

ان خفیہ دستاویزات کے بارے میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم کا دعویٰ تھا کہ درجنوں دستاویزات اور سی ڈیز  موساد کے ایجنٹ تہران سے چوری کر کے اسرائیل لائے تھے،لیکن اب اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ وہ موساد کے ایجنٹ تھے یا ایرانی فورسز میں موجود اسرائیلی ایجنٹس کی کاروائی تھی ۔

واضح رہے گزشتہ دو دہائیوں سے ایران کے جوہری پروگرام اور ان کے جوہری سائنسدانوں پر حملے ہوتے آ رہے ہیں لیکن حیران کن بات یہاں پر یہ بھی ہے کہ ان خفیہ ٹھکانوں اور اہم شخصیات کی سکیورٹی کے ذمہ داران کیخلاف کیاکوئی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے یا نہیں ؟2013 میں محمود احمدی نژاد کی صدارت کے آخری سال میں ایسی افواہیں پھیلی تھیں کہ آئی آر جی سی کے کمانڈر، انٹیلیجنس افسران اور یہاں تک کہ خطیبوں کو بھی موساد کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے لیکن سرکاری طور پر ان الزامات کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔

رپورٹ: بی بی سی 

مصنف کے بارے میں