پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی: اکبر ایس بابر

پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی: اکبر ایس بابر
سورس: File

اسلام آباد: پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ دبئی سے ووٹنگ کرکٹ کلب سے پی ٹی آئی کو 2.1 ملین ڈالرز کی فنڈنگ ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان دل سے رپورٹ کو ویلکم کرتے ہیں تو اس کے خلاف 7 رٹ پیٹیشنز کیوں دائر کیں؟ ان کے وکیل نے کیوں کہا کہ رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے؟ کہتے ہیں عمران خان کا بیان 35 پنکچر والا ہے جسے بعد میں کہا گیا کہ یہ سیاسی بیان ہے۔

اکبر ایس بابر کا اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر کہنا ہے کہ قانون کہتا ہے کہ  کوئی پاکستانی شہری انفرادی حیثیت میں فنڈنگ کر سکتا ہے لیکن کمپنی کسی سیاسی جماعت کو فنڈنگ نہیں کر سکتی۔

اکبر ایس بابر کہتے ہیں سوال یہ پیدا ہو رہا کہ ایک کرکٹ کلب نے پی ٹی آئی کو اتنی فنڈنگ کیوں کی؟سائمن کارک وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی تھے انہوں نے ابراج پر کتاب لکھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ دبئی کے اس کرکٹ کلب کا تعلق عارف نقوی اور ابراج سے ہے اگر اس کا تعلق ابراج اور عارف نقوی سے تو اس کے اور بھی برے نتائج ہیں۔

 انہوں نے بتایا  نیویارک میں عارف نقوی ہر کیس چل رہا ہے جبکہ عارف نقوی کے پارٹنرز وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں اگر کیس نیورک میں چلا تو ایف بی آئی بھی تحقیقات کرے گی کہ پیسا گھوم گھما کے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں کیسے پہنچ گیا؟ عارف نقوی عمران خان کی اکنامک ایڈوائزری ٹیم میں بھی تھے جب عارف نقوی گرفتار ہوئے تو انہوں نے فسٹ کنیکٹ کے طور پر عمران خان کا نمبر دیا تھا۔

اکبر ایس بابر کہتے ہیں کہ رپورٹ میں فارن بینک اکاؤنٹس کی بھی تصدیق ہو گئی ہے ان کا کہنا تھا میں پہلے دن سے کہہ رہا تھا کہ سکرونٹی کمیٹی کے ہاتھ پاؤں کیوں بندھے ہوئے ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن نے انکو حکم دیا تھا کہ جس ادارے سے چاہیں معلومات لے سکتے ہیں۔

 پی ٹی آئی والوں نے توجہ ہٹانے کے لیے شوشہ چھوڑا ہوا ہے کہ 31 کروڑ کا شارٹ فال ہے۔ ہم نے یہ دیکھنا یے کہ اتنے ارب پیسے آئے اور اتنے ارب چھپائے گئے ۔ ہم نے اپنے آڈیٹرز کے ذریعے 2.2ارب روپے کی غیر ملکی فنڈنگ پکڑی ہے وہ اپنی رپورٹ میں جمع کروائیں گے ۔

ان کا کہنا تھا عمران خان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ۔ یہ 35 پنکچر کی طرح انکا بیان ہے جو بعد میں کہہ دیا تھا کہ سیاسی بیان ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا اگر عمران خان دل سے رپورٹ کو ویلکم کرتے تو اس کے خلاف 7 رٹ پٹیشن کیوں دائر کی؟ اب بھی انکے وکیل نے کہا کہ رپورٹ کو پبلک نا کیا جائے۔

مصنف کے بارے میں