آزادی اظہار رائے اور نظریہ پاکستان

آزادی اظہار رائے اور نظریہ پاکستان

آزادی اظہار رائے سے مراد کسی کی دل آزاری، کسی کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ملکی سلامتی اور مذہبی جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا۔ لیکن افسوس اغیار نے نوجوان نسل کے اذہان میں آزادی اظہار رائے کا کچھ اس طرح سے زہر گھولا ہے کہ ملکی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہر اس کو بھی اپنی گرفت میں لانا ہے جو اس شتربے مہار تھیوری سے ا خلاقی روایات سکھانے کی کوشش بھی کرے۔ آزادی اظہار کے نام پر عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پوری منصوبہ بندی سے ہمارے معاشرے میں لبرل، دین بیزار اور سیکولر طبقے کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی فراہم کیا۔ تاکہ پاک یوتھ کے اذہان سے نظریہ پاکستان اور دینی رجحان ختم کر کے آزادی اظہار کے نام پر ان کی سوچ و فکر کو منتشر خیالات کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ پھر ان کو اپنی مرضی سے جب چاہے جس طرح چاہے اسی طرح ہانکا جا سکے۔ لا محالہ آج مملکت اسلامیہ میں دجالی قوتیں کثیر المقاصد کے حصول کے لیے پاک یوتھ کی فکری توانائی کو انہی خطوط پر استعمال کر رہی ہیں۔ 1965 میں پاک فورسز اور غیور قوم نے ایک بازو بن کر اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دینے سمیت 1967 کی عرب اسرائیل جنگ  کے دوران پاک شاہینوں کی جانب سے Air War میں صہیونی کرگسوں کو تنکوں کی طرح اڑا دیا۔جس سے دشمنان پاکستان میں سراسیمگی پھیل گئی۔ انہیں اچھی طرح ادراک ہو 
چکا تھا کہ اگر انہوں نے بروقت مملکت اسلامیہ کو قابو نہ کیا تو جلد یا بدیر دنیا میں ایک ایسی اسلامی سپر پاور ابھرے گی جو ان کے باطل نظریات و مفادات کے حصول کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے گی۔
 تب انہوں نے نوجوان نسل کے اذہان سے اسلامی تشخص (نظریہ پاکستان  لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ)کو مٹانے کے لیے آزادی اظہار رائے کے نام پر کھلواڑ شروع کیا۔ جس کے لیے سب سے پہلے سیاسی پلیٹ فارم کو منتخب کیا گیا۔ جس کو بنیاد بنا کر قوم اور سکیورٹی اداروں میں نفرتوں کی خلیج کا بیج بو کر مملکت اسلامیہ کو دولخت کیا گیا۔ اور آج ایک دفعہ پھر سیاسی محاذ پر اس کے مہلک اثرات ہم اپنی چاروں جانب دیکھ رہے ہیں، لیکن سمجھنے سے عاری ہیں۔ کیونکہ دشمنان اسلام نے ہماری سب سے قیمتی متاع”نظریہ پاکستان“ ہی ہم سے چھین لیا ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر بانت بانت کی بولیاں بول کر ملک کی سلامتی کو داو پر لگا دیا گیا۔ ہر ایک نے اپنی ملی و ایمانی قیمت لگا رکھی ہے اور شیطان کے پجاریوں نے دھڑا دھڑ ایسے مال حرام کو خرید کرمملکت اسلامیہ میں آزادی اظہار کے نام پر رقص ابلیس برپا کررکھا ہے۔نظریاتی سرحدوں کے خلاف کتنی چالاکی وعیاری سے کھیل کھیلا جارہا ہے۔ سیاسی لیڈرشپ کو کس حد تک دین اسلام”قرآن وسنت“ سے بدظن کر دیا گیا ہے۔ جب بھی سیاسی ڈھانچے کو اسلامائزشن کی طرف لانے کی بات کی جاتی ہے، کرپٹ زدہ سیاسی عناصر و زرخرید میڈیا بلبلا اٹھتاہے کہ کیا اب ہماری سیاست بھی اسلامی ہو گی؟ جس کے مہلک اثرات کا مشاہدہ آئے روز کرنا پڑتا ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر میرا جسم میری مرضی جیسے ننگ ملت نعروں، پارلیمنٹ لاجز میں اذان سے بیزاری سمیت ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و ناموس صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، حرمت قرآ ن اور شعائر اسلام کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیر آئے روز کا معمول بن چکی ہے۔ اسمبلیوں میں ختم نبوت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی جسارت کی جاتی ہے، کبھی تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے اپیل دائر کی جاتی ہے تو کبھی ہندو مندر کی بنیاد رکھ کر اللہ کی وحدانیت کو کھلا چیلنج کیا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لاکھوں قربانیاں دینے اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی مملکت اسلامیہ کے وزیر برائے مذہبی امور حکومتی اشرافیہ کے سامنے برملا جرم ضعیفی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مذہبی وزارت، دین اسلام کے لیے نہیں بلکہ یہ تو منسوخ شدہ ادیان کی نشرواشاعت کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم پر اللہ کا عذاب (مہنگائی، سیاسی و معاشی عدم استحکام اور قتل وغارت گری) کی شکل میں کیوں نازل ہو رہا ہے؟  عذاب نہیں آئے گا تو من وسلویٰ اترے گا۔ ہمیں یہ سچائی ہمیشہ کے لیے اپنی نسلوں کے اذہان میں بٹھا دینی چاہیے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیادپر معرض وجود میں آیا اور اس نے بچنا بھی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہی ہے۔اول و آخر ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہی پڑے گا ورنہ بقول شاعر: تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔