ڈار صاحب نے تو اندھیرا بھی گنوا دیا

ڈار صاحب نے تو اندھیرا بھی گنوا دیا

عرصہ ہوا منو بھائی جنت مکین سے ایک واقعہ سنا کہ ایک برسات کی شام ایک مزدور چودھری کی گندم کے تھیلے کندھوں پر اٹھا کر زمین سے اوپر کی منزل پر پہنچا رہا تھا۔ سیٹرھیاں بھی نم تھیں اور شام بھی ڈھلے جا رہی تھی مزدور کو ایک ایک من کی بوری باری باری اوپر کی منزل پر پہنچاتے شام رات میں بدلنے لگی۔ دن کو رات اور رات کو دن میں بدلنے کا وقت بہت اہم ہوا کرتا ہے۔ ان دو وقتوں کی اللہ کریم نے قرآن عظیم میں قسم بھی کھائی (قسم کے معانی گواہ رکھنے کے بھی ہوا کرتے ہیں) بہر حال شائد مزدور کی شام ڈھلنے کے وقت دعا قبول ہوئی اور چودھری نے حاتم طائی کو مات دیتے ہوئے جیب سے ماچس نکالی۔ یہاں میں قارئین کو یاد دلا دوں کہ اندھیرے میں چلنے پھرنے سے بھی ایک عجیب سی مدھم سی راہنمائی ہوا کرتی ہے جیسے رات کے وقت اندھیرے میں بندہ واش روم چلا جاتا ہے، ٹی وی لاؤنج سے کوئی چیز اٹھا سکتا ہے، کمرے یا گھر کا دروازہ کھول سکتا ہے گویا اندھیرے میں بھی کچھ نظر آ ہی جاتا ہے۔ اس اندھیرے میں لمحہ بھر کے لیے اگر روشنی ہو اور یکدم گل ہو جائے تو اندھیرے کی شدت میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے اور نظر آنا بالکل بند ہو جایا کرتا ہے گویا اندھیرے میں جو پہلے نظر آ رہا ہوتا ہے وہ بھی نظر نہیں آتا۔ اب آتے ہیں چودھری سخاوت اور اس کی جیب سے ماچس نکالنے پر مزدور کے دل میں پیدا ہونے والی امید پر، چودھری نے تیلی جلائی جو کہ (سِلی) یعنی گیلی تھی وی جلی روشنی ہوئی اور پھر یکدم اندھیرا اور گہرا ہو گیا۔ مزدور کے منہ سے بے اختیار نکلا ”چودھری جی تسی تے ساڈا ہنیرا وی گنوا دتا ہے“۔ چودھری صاحب آپ نے تو ہمارا اندھیرا بھی گنوا دیا۔
اسی صورت حال میں عوام مبتلا ہیں، عمران نیازی کا دور ایک تاریک، تکلیف دہ، خلاف آئین و قانون، سیاسی انتقام، مہنگائی، بے روزگاری، مافیا پروری، غریب ماری، خلاف ثقافت و روایت دور تھا۔ 70 سال میں سے لیے جانے والے قرض کا 80 فیصد عمرانی دور میں قرض لیا گیا کہاں لگا کچھ خبر نہیں، کرپشن اور کاروبار گلشن یکجا ہوا۔ عوام کی حالت زار نا قابل بیان ہو گئی۔ اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی عیاں تھی، بدنامی ہو رہی تھی انہوں نے سیاست میں واجب دلچسپی سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ نتیجتاً اپوزیشن نے عدم اعتماد سے عمران کو چلتا کیا مگر 14 کروڑ کے صوبہ پنجاب اور 6/7 کروڑ کے صوبہ کے پی کے میں اس کی حکومت ساڑھے چار سال تک قائم رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2017/18 میں وطن عزیز کے حالات ہر لحاظ سے بہتر تھے۔ 2002 میں جب عمران کی حکومت خس کم وطن پاک کا معاملہ ہوا تو حالات ہر لحاظ سے بہت خراب تھے۔ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار تھا، قرضوں کے بوجھ تلے دیوالیہ ہونے کے اعلان کی حد تک تھا اور اس پر دو آتشہ یہ کہ عمران نیازی اور اس کے حواری چوبیس گھنٹے افواہ سازی، فیک نیوز، پاکستان ڈیفالٹ کی خبریں ہی نہیں سنا رہے تھے کوششیں بھی کر رہے تھے۔ سیاسی ابتری نے معاشی عدم استحکام پیدا کیا۔ 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات اگر نیازی صاحب کے فالورز کو پتہ چل جائیں انہیں معلوم ہو کہ یہ کس خناس میں مبتلا ہو چکے ہیں مگر سب باتیں اپنی جگہ حکومت سے اور لیڈر شپ کے تقاضے لوگوں کو سہولت، امید اور بنیادی ضروریات زندگی کی ارزانی اور آسانی سے فراہمی ہوا کرتا ہے۔
کیا حالات 1971 سقوط ڈھاکہ سے بھی گئے گزرے ہو گئے مگر ویسی قیادت نہیں۔ آگے نیا بجٹ آ رہا ہے حکومت میں موجود بعض لوگ بھی گلشن کے کاروبار میں مبتلا ہیں۔ مگر عوام کا پُرسان حال کوئی نہیں زندگی بچانے والی ادویات اور عام ادویات کا مہنگا کرنا، چلیں سمجھ گئے کہ ڈالر مہنگا اور خام میٹریل مہنگا ہے مگر دیکھا گیا کہ جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات بھی درآمد شدہ ادویات کے برابر نہیں بلکہ زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مارکیٹ میں ایک ہی چیز کی قیمت مختلف ہے۔ یہ مجسٹریٹ جو پرویز الٰہی کو مقدمہ دیکھے بغیر ضمانتیں دے رہے ہیں ان کو پرائس کنٹرول کمیٹی میں ڈالنا چاہئے مگر میرے خیال سے وہاں بھی یہ حکومت کو ناکام کرنے میں مدد دیں گے۔ مختصر حالات مقدمہ تو یہ ہیں کہ میاں شہباز شریف کی حکومت اور ڈار صاحب کی وزارت خزانہ نے عوام جن کو عمران کے سیاہ ترین دور میں زندہ رہنے کا ڈھنگ آ گیا تھا، راستوں سے آشنا ہو چکے تھے، تاریکی مقدر سمجھ بیٹھے تھے، تاریکی میں جینا، بے بسی بسنا سیکھ گئے تھے، صبر کر چکے تھے شکر کے درجے پر فائز ہو چکے تھے مگر قدرت نے مہربانی کی کہ عمران کا فیض یافتہ دور ختم ہوا، وسیم اکرم پلس کا چہرہ گم ہوا، پرویز الٰہی سے جان چھوٹی اور نیا سیٹ اپ آ گیا مگر یہ ایسی دیا سلائی اور روشنی ثابت ہوا جس کی خبر کی صرف روشنی آئی اور وہ خبر مٹھی میں پانی بند کرنے سے بھی کم لمحہ ٹھہری اور اس کی روشنی نے ہمارا اندھیرا بھی گنوا دیا۔ ڈار صاحب! آپ کی وزارت میں چن چن کر کرپٹ افسران کو فیلڈ میں تعینات کیا جا رہا ہے اور اسی طرح چن چن کر دیانتدار افسران کو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے۔ کسٹم اور آئی آر کے افسران اپنے ضمیر اور خواہش کو دبا کر اگر کوئی مقدمہ بنا دیں تو وہ کسٹم ٹربیونلز اور آئی آر ٹربیونلز کے بعض ممبران مقدمہ کو جنس سمجھ کر بیچے چلے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت میں تو اداروں کی بے توقیری بھی ہوئی اور حکومت کی رٹ کو قانون شکنوں، شرپسندوں اور مجرموں نے شٹ اپ کال دے دی، بلاول بھٹو نے کراچی میں کہا کہ سب سے غیر مقبول ادارہ واپڈا ہے ظاہر ہے لوڈشیڈنگ اور بجلی مہنگی کی وجہ سے مگر ڈار صاحب کا ادارہ اور اس میں ایف بی آر انقلابی اور بنیادی اصلاحات مانگتا ہے۔ اگر نیت درست ہو تو ایک ماہ میں کرپشن کا گراف 90 فیصد کم کیا جا سکتا ہے۔ میرے دوست میاں ذوالقرنین کسٹم ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہیں وہ کہتے ہیں یار بٹ صاحب یہ حکومت تنخواہوں کو بڑھاتے وقت سمجھتی ہے کہ ریٹائرڈ لوگ 1925 میں سودا سلف اور ضروریات زندگی خرید رہے ہیں حالانکہ کرسی پر جو سہولیات موجود ہوتی ہیں اب وہ بھی نہیں ایک جانب ریٹائرڈ جج صاحبان اور فوجی افسران کو نئی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں جبکہ دوسری جانب نوجوان نوکری کی عمر کی حد عبور کر رہے ہیں۔ بہر حال ڈار صاحب! تساں ساڈا ہنیرا وی گوایا جے۔