تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد

جب دنیا دو قطبی تھی تو اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرچم تلے تقسیم تھی ایک طرف امریکی گروپ تھا دوسری طرف اشتراکیت کا زور تھا ہم ابھی نئے نئے آزاد ہوئے تھے۔ دنیا نے دوسری جنگ عظیم (1939-45) کی ہولناکیاں دیکھی تھیں۔ برطانوی و یورپی استعمار کمزور ہو گیا تھا۔ نوآبادیاتی نظام زوال پذیر تھا۔ امریکہ عالمی قیادت اور سنگھاسن کے افق پر آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو رہا تھا۔ اشتراکیت نے بھی 1923 کے سرخ انقلاب کے نتیجے میں روس میں اپنے پنجے گاڑ لئے تھے روسی جاگیردارانہ و بادشاہت کو مکمل طور پر فنا کی گھاٹ اتار کر اشتراکیت کو بڑے عزم کے ساتھ دنیا پر غالب کرنے کی کاوشیں کی جا رہی تھیں اور دو قطبی عالمی نظام اپنے زورشور کے ساتھ دنیا پر غالب آ رہا تھا ہمیں بھی کسی ایک عالمی چودھری کا ساتھی بننے کا اختیار حاصل تھا ہم نے امریکی اتحادی بننا قبول کیا۔ ہندوستان نے متوازن پالیسی اختیار کی۔ غیروابستہ تنظیم (NAM) کے قیام میں کردار ادا کیا اس سے وابستہ ہوئے لیکن امریکہ کے ساتھ بھی رہے اور اشتراکیت کو بھی اپنے ساتھ رکھا قومی مفادات کے تحت، اپنے مفادات کے حصول میں لگے رہے۔ آج وہ ایک طاقتور معاشی اور سفارتی قوت کے طور پر سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کا امیدوار بن گیا ہے۔ امریکہ ہو یا روس، برطانیہ ہو یا یورپی ممالک، حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے طاقتور عرب ممالک بھی اس کی دوستی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں حالانکہ عربوں کے دشمن اسرائیل کے ساتھ بھی بھارت کے برادرانہ، سیاسی، تجارتی، دفاعی اور سفارتی تعلقات کی گرمجوشی پائی جاتی ہے لیکن ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اقوام عالم میں، عالم عرب میں ہماری حیثیت کیا ہے؟۔
ہماری قریبی ہمسایوں بشمول بھارت، افغانستان، ایران، روس، ترکی اور چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے ہمیں مٹانے کے در پے ہے ہم اس کے ساتھ اکثروپیشتر حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ افغانستان گزرے 40 سال سے عالمی طاقتوں کی آویزش اور کشت و خون کا شکار ہے ہم براہ راست اس صورت حال کا شکار ہیں۔ طالبان کی واپسی سے امید تھی کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو جائیں گے لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔ چین کے ساتھ ہماری ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی بھی اس مقام پر فائز نہیں ہے جہاں ہونی چاہئے۔ سی پیک کے معاملات پر ہماری موجودہ حکومت کی غیر دانشمندانہ پالیسی نے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے سٹرٹیجک تعلقات میں سردمہری پیدا کر دی ہے۔ امریکی دبائو کے باعث اور سعودی عرب کی خوشنودی کے لئے ہم ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر نہیں کر سکے۔ ترکی کے ساتھ پہلے سے قائم دوستانہ تعلقات موجودہ حکومت کی عاقبت نااندیشی کے باعث سردمہری کا شکار ہیں۔
قومی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی طور بھی قابل فہم نہیں لگ رہا ہے۔ سیاسی قائدین، اپنی اپنی جماعتوں اور اپنے اپنے اتحادیوں سمیت ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں نظر آ رہے ہیں ایک لایعنی مگر حتمی لڑائی اور محاذ آرائی جاری ہے کوئی نظریاتی یا اصولی اختلافات اور نظریات کا ٹکرائو نہیں ہے بلکہ حصول اقتدار کے معاملات ہیں جو طے کئے جا رہے ہیں۔ پہلے کسے گرانا ہے۔ سپیکر یا وزیراعظم، یا پھر پنجاب حکومت کا دھڑن تختہ کرنا ہے پھر مرکز میں جانا ہے۔ گرانے کے بعد کیا ہو گا، کون کیا بنے گا۔ وزیراعظم کون ہو گا، وزیراعلیٰ پنجاب کون ہو گا، کس کو مرکز اور صوبے میں کس قدر حصہ ملے گا؟ اگلے عام انتخابات کب ہوں گے اس میں کس کی کیا پوزیشن ہو گی کس کو اقتدار میں کتنا حصہ ملے گا؟ ایسے معاملات زیربحث ہیں الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا گروپ مباحث ہر جگہ یہی موضوعات زیربحث ہیں۔
ہماری ملی تاریخ کا ایک بڑا نام، عنایت اللہ خان المعروف علامہ مشرقی ہیں انہوں نے سیاست، صحافت، سائنس اور مذہب میں عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے تقسیم ہند کے بعد پیشن گوئیاں کی تھیں جن میں ایک پیش گوئی مشرقی و مغربی پاکستان کی علیحدگی کے متعلق تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ 25 سال کے بعد یہ دونوں خطے الگ الگ ہو جائیں گے۔ کسی نے پوچھا آپ اس قدر یقین کے ساتھ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں، انہوں نے کہا یہ کوئی فلسفے یا روحانیت کا سوال نہیں ہے۔ یہ سادہ سی حساب دانی ہے اس وقت یعنی 1947-48 میں مشرقی پاکستان کے سکولوں کی واضح اکثریت میں ہندو اساتذہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھنے والی نسل جب عملی زندگی میں آئے گی تو وہ پاکستان کی ہرگز حامی نہیں ہو گی، ہندو اساتذہ نے ان کے اذہان مسموم کر دیئے ہوں گے اس لئے وہ اپنی راہیں جدا کرنے کے حامی ہوں گے۔ ذرا غور کریں 1971 میں بنگلہ دیش بن گیا، آل انڈیا مسلم لیگ بنانے والے بنگالیوں نے، قرارداد پاکستان پیش کرنے والے بنگالیوں نے، تحریک پاکستان میں ہراول کا کردار ادا کرنے والے پاکستانیوں نے لڑ کر متحدہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کی۔ ٹھیک 23 سال بعد 1947 میں قیام پاکستان کے ٹھیک 23 سال بعد 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہو گیا۔ دنیا کی جدید تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ اکثریت نے (بنگالیوں نے)، اقلیت (پنجابیوں، پٹھانوں وغیرہم) سے لڑ کر علیحدگی اختیار کی۔ پھر یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ مسلمانوں کی 1400 سالہ ملی و عسکری تاریخ میں کسی مسلمان لشکر نے ہندوئوں جیسی غیرمارشل/ جنگجو قوم کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوں۔ لیکن ہم نے سب کچھ بھلا دیا۔ 
ہم نے دشمن تو دشمن ہوتا ہے اپنوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد کی نصف صدی پر مشتمل سیاست کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں معاملات کچھ بہتر نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مارشل لا، جنرل یحییٰ کے مارشل لا کے دوران سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ اس سے پہلے گیارہ سالہ جنرل ایوبی دور (1958-1969) میں اس سانحے کی پرورش ہوتی رہی ہمارے سیاستدان و بیوروکریٹ بھی اس میں اس جرم عظیم میں برابر کے شریک رہے۔ پھر نئے پاکستان کا نیا سفر شروع ہوا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سویلین (ذوالفقار علی بھٹو) نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا پھر 1977 میں بھٹو حکومت جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتر گئی تمام سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کے اس اقدام کو خراج تحسین پیش کیا۔ بھٹو کا فسطائی دور حکمرانی ختم کرنے پر جنرل ضیاء الحق کو عوام نے خوش آمدید کہا، پھر اشتراکیت کے خلاف افغان جہاد کی کامیابی کے ساتھ ہی جنرل ضیاء اور ان کے فوجی ساتھیوں کو 1988 میں C-130 کے حادثے میں منظر سے ہٹا دیا گیا ہم امریکی پابندیوں کا شکار ہو گئے۔ پھر ایک اور نیا دور شروع کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ محاذ آرائی کی سیاست مقتدر حلقوں کے زیرسایہ، ان کی نگرانی اور رہنمائی میں چلتی رہی۔ غلام اسحاق خان، فاروق لغاری جیسے صدور اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ مل جل کر کھیل کھیلتے اور کھلاتے رہے، حتیٰ کہ 2000 میں جنرل مشرف نے نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک نئی بساط سیاست بچھائی۔ ایک کنگز پارٹی تشکیل دی، ق لیگ کی صورت میں ادھر ادھر سے مفاد پرست الیکٹ ایبلز کو اکٹھا کر کے حکومت بنائی۔ یہ سلسلہ 2003 میں قائم کی جانے والی ق لیگی حکومت کے قیام کے ساتھ 2008 تک چلتا رہا، پھر بے نظیر بھٹو کی جنرل مشرف کے ساتھ مفاہمت اور وطن واپسی اور اس کے ساتھ ہی شریف خاندان کی پاکستان واپسی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ 2008 کے انتخابات میں کنگز پارٹی سیاسی افق سے غائب ہو گئی۔ مرکز اور صوبوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگی حکومتیں قائم ہو گئیں اور ایک ایسے نئے سیاسی دور کا آغاز تصور کیا جانے لگا۔ لیکن یہ دور جو پیپلز پارٹی (دور حکومت 2008-13) اور مسلم لیگ نواز (2013-2018) کے دس سالہ اقتدار پر مشتمل ہے انہیں بھی چلنے نہیں دیا گیا پھر ایک اور ہائی برڈ کنگز پارٹی کو عمران خان کی قیادت میں اقتدار دیا گیا۔ اس ہائی برڈ نظام کو 3.5 سال ہونے کو آئے ہیں نتائج سامنے ہیں۔ ملکی معیشت ، معاشرت اور سیاست کا جو حال ہے ہمارے سامنے ہے۔ حکومتی اداروں کی کارکردگی ہو یا فیصلہ سازی کا عمل، عملاً جمود کا شکار ہے۔ عالمی اداروں کی ڈکٹیشن چل رہی ہے۔ ہماری سفارتکاری کا بھی برا حال ہے فیٹف بھی ہمارے اعصاب پر سوار ہے اور آئی ایم ایف تو جیسے ہمارے معاشی نظام پر قابو پا چکا ہے ہر روز معیشت پر دبائو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جس کے باعث معاشی صورت حال ابتری کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ 
قومی سیاسی محاذ بھی شدید گرمی اور بحران کا شکار ہے ایک بے یقینی اور ناامیدی کی مہیب صورت حال جاری ہے۔ حکمرانوں کی نااہلیاں عوام دشمن پالیسیوں کے نتائج اپنی جگہ ہیں لیکن اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد نے بھی بے یقینی اور ناامیدی میں اضافہ کر دیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کب پیش ہو گی؟ کس کے خلاف پیش ہو گی؟ پہلے سپیکر قومی اسمبلی کو ہٹایا جائے گا یا وزیراعظم کو؟ پنجاب حکومت کب گرائی جائے گی؟ کامیابی کی صورت میں کیا ہو گا؟ ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ ویسے اگر واضح ہو بھی جائے تو عمران خان کی رخصتی کے بعد کے معاملات بھی ابہام کا شکار ہیں۔ حکومت سے باہر اپوزیشن اتحاد اور غیراتحادی جماعتوں میں بہت سے مسائل پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا، کچھ تو سرے سے ہی نظام انتخاب کے خاتمے کی حامی ہیں اور وہ متناسب نمائندگی پر زور دے رہی ہیں، کچھ مقتدر حلقے پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ فی الوقت فکری انتشار اور بے عملی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے جملہ قومی معاملات بشمول معاشیات، سیاسیات اور سفارتی حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ انہیں آسانی کیا مشکل سے بھی درست سمت میں ڈالنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس پر مستزاد اپوزیشن کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل بھی نہیں ہے۔ اس لئے سردست حالات میں بہتری کی توقع عبث نظر آتی ہے۔ باقی غیب کا علم تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ہے۔

مصنف کے بارے میں