قانون کی عملداری، افسروں کی سمجھداری؟

قانون کی عملداری، افسروں کی سمجھداری؟

ایک دور تھا جب ہماری بیوروکریسی دنیا میں ماڈل تسلیم کی جاتی تھی،ترقی پذیر ممالک سرکاری افسروں کو تربیت کیلئے پاکستان بھجوایا کرتے تھے، قیام پاکستان کے بعد کی بیوروکریسی، نظم و ضبط،مہارت،تجربے،دیانت،کام کی لگن،قواعد ضوابط کی پابندی کے حوالے سے مثالی تھی،افسر کسی قسم کی مداخلت اور دباؤ برداشت کرتے تھے نہ کسی افسر کو اصول و ضوابط سے ہٹ کر کام پر مجبور کیا جا سکتا تھا،یہ وہ زمانہ تھا جب قانون کی عملداری اور افسروں کی سمجھداری مشہور تھی۔ قواعد کا احترام عام تھا،سرکاری ملازم حکومتی نہیں ریاست کے ملازم ہوتے تھے،کسی حکمران کو غیر قانونی حکم دینے کی جرأت نہ تھی،یہی وجہ ہے کہ آزادی کے فوری بعد بڑے بڑے جاگیردار،سرمایہ کار اور سیاستدان اپنے بچوں کو سرکاری افسر بنانے کو ترجیح دیتے تھے،مگر سیاسی مداخلت،حکومتی دباؤ کے باعث یہ مثالی فورس انحطاط کا شکار ہوتی گئی۔ریاست کے مفادات پر حکومتی مفادات غالب آ گئے،زبانی اور قواعد کے منافی احکامات کی تعمیل ہونے لگی،اصول و قانون ثانوی حیثیت اختیار کر گئے، افسروں کی قابلیت،پسند نا پسند پر پرکھی جانے لگی،تبادلے اور ترقی کو حربہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
افسروں کی اصول پسندی اور قانون و قاعدے کی وجہ سے وقت کے حکمران اپنے مطلب کے افسروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے،ہر حکمران اپنے ہر قسم کے احکامات پر بلا چون و چرا عمل کرنے والے افسروں کے گروپ بناتے اور زبانی احکامات سے امور سلطنت چلاتے رہے،نتیجے میں بیوروکریسی میں سیاسی جماعتوں کے وفادار گروپ وجود میں آ گئے،نئے حکمران اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد اپنے وفادار پسندیدہ افسروں کو تلاش کر کے ذمہ داریاں سونپ کر خود حکمرانی انجوائے کرتے،بیوروکریسی کی اکثریت اب ریاست یا حکومت کے نہیں اپنے پسندیدہ سیاستدانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کے ملازم اور وفادار بن چکے ہیں،نتیجے میں دنیا کی بہترین بیوروکریسی حکمرانوں کے ہاتھ میں کھلونا بن گئی،اعلی عہدوں پر تعیناتی کیلئے یہی طریقہ رواج پا چکا ہے،حکمران اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ اور وفادار افسر متعین کر کے اقتدار کو مضبوط کرتے ہیں۔
ماضی قریب میں افسر کی اہلیت اس کی تعلیم،تجربہ،قابلیت،دیانت،اصول پسندی،کام سے لگن،قاعدہ قانون کے احترام،محنت کو تصور کیا جاتا تھا، بہترین اپ رائٹ افسروں کی نہ صرف ساتھی افسر بلکہ حکومتی ذمہ داران بھی قدر کیا کرتے تھے،حکمران اقتدار کے استحکام،طوالت،عوامی مسائل کے حل،منشور پر عملدرآمد کیلئے ایسے افسروں کو چراغ لیکر ڈھونڈتے اور اہم عہدوں پر تعینات کرتے تھے،مگر اب دیکھا جاتا ہے کسی بھی افسر سے کس قسم کے اور کیسے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں، حکومت کو کیسے مفادات مل سکتے ہیں،حکومت کے استحکام طوالت میں کتنے معاون ہو سکتے ہیں،جن میں یہ اوصاف ہوتے ہیں ان کی اہم ترین عہدوں پر تعیناتی عمل میں آجاتی ہے،اہلیت قابلیت اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔
بات اب اس سے بھی آگے نکل گئی ہے،قبل ازیں فوائد سیاسی اور انتظامی اہمیت رکھتے تھے مگر بتدریج مالی مفادات نے بھی ان کی جگہ پا لی ہے،اب سیاسی اور انتظامی فوائد ثانوی ہو گئے اور مالی مفادات اہمیت اختیار کر گئے کچھ افسروں کو تو کچھ حکمران مالی مشیر کا درجہ دے دیتے ہیں،ان کے اصل فرائض منصبی پس پردہ چلے جاتے ہیں اور وہ حکمرانوں کو بتاتے ہیں کس منصوبہ سے وہ کیسے مفادات حاصل کر سکتے ہیں،اب تو افسروں کی تعیناتی میں واقفیت، تعلق واسطہ بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا،نظر صرف مفاد پر ہوتی ہے،یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ فلاں افسرمستقبل میں کوئی نقصان تو نہیں پہنچا سکتا اگر اس ضمن میں رتی بھر بھی اندیشہ ہو تو ایسے افسر کو راندہ درگاہ کر دیا جاتا ہے،یہ وہ عوامل اور عناصر ہیں جن کی وجہ سے بیورکریسی انحطاط اور زوال کا شکار ہے،بد قسمتی سے انحطاط کا یہ سفر اختتام پذیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے بیوروکریسی کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور ان کی اہمیت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے،ریاست کے ملازم حکومت کے بھی ملازم نہیں رہے سیاسی جماعتوں کی بی ٹیم بن چکے ہیں۔
دیکھا جائے تو کسی بھی ریاست کے انتظامی امور چلانے میں بیوروکریسی کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے، ریاستی امور کو بہتر انداز سے چلانے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مضبوطی استحکام اور سیدھا ہونا از حد ضروری ہے مگر ہمارے حکمران طبقہ نے اندھی طاقت اور اقتدار کی طوالت کیلئے اس اہم ترین عضو کو کمزور کر دیا،بیورو کریسی کے تارو پود ہلا دئے، اس پر شکوہ ہے ریاست کے نادہندہ ہونے کا، انتظامی، مالی، سیاسی،پارلیمانی بحران کا۔
ہم نے انتظامی امور میں جس قدر بے اعتدالی برتی ہے اس کے بعد آج اگر ہم،بدحالی کا شکار ہیں تو یہ کچھ بھی نہیں ابھی جانے کیسے کیسے حالات کا ہمیں سامنا کرنا ہو گا،اگر ہم نہ سنبھلے تو پھر کچھ بھی پردہ غیب سے ظہور میں آ سکتا ہے، ملک معاشی بحران سے دوچار ہے تو اس کی واحد وجہ مالی امور نا تجربہ کار،نا اہل سفارشی افسروں کے سپرد کرنا تھا جنہوں نے حکمرانوں کو ان کی بد اعمالی سے روکا نہ رضاکارانہ عہدہ چھوڑ کر کسی اہل افسر کو آگے آنے دیا،قواعد ضوابط اصول قانون کو اہمیت نہ دی حکمرانوں کے زبانی احکامات پر نتائج کی پروا کئے بغیر عملدرآمد کا یہی نتیجہ بر آمد ہونا تھا۔
ملکی حالات، جمہوریت،نظم و نسق کو نگلنے کو تیار ہیں مگر آج بھی حکمران آئینی ماہرین کے بجائے سیاسی نا اہلوں کے مشورے پر عمل پیرا ہیں، جو آئینی ماہرین دستیاب ہیں ان سے استفادہ کرنے کے بجائے انہیں اپنے مفاد میں کوئی بیچ کا راستہ تلاش کرنے کا کہہ رہے ہیں،اگر چہ سپریم کورٹ واضح طور اسمبلی تحلیل کے 90روز کے اندر الیکشن کا حکم دے چکی ہے مگر کے پی کے میں اب بھی تا خیری حربے آزمائے جا رہے ہیں،نتائج کی پروا کئے بغیر،حالانکہ سیاسی انارکی کے بعد جمہوریت کی کایا بھی لپیٹی جا سکتی ہے۔
ریاست کے تین ستون کا فارمولا صدیوں سے آزمودہ ہے بلکہ اب تو ترقی پذیر ممالک فوج اور ترقی یافتہ ممالک صحافت کو چوتھے ستون کی حیثیت دے رہے ہیں،مگر ہم پے در پے ناکامیوں کے باوجود عدلیہ کے بھی پر کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں تو باندھ ہی دئے گئے ہیں نتیجے میں آج ملک میں ہر طرف بحران ہی بحران ہیں،عام شہری کو قدم قدم پر مافیاز کی لوٹ مار مظالم زیادتیوں کا سامنا ہے،ذخیرہ اندوزی منافع خوری،مہنگائی عام ہے مگر اس کیلئے آزمودہ فورس کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے،پرائس کنٹرول مجسٹریٹس قصہ ماضی ہیں ضلعی انتظامیہ بے بس بلکہ بے اختیار ہے،لیکن حکمران بیوروکریسی کو با اختیار کرنے سے خوف زدہ ہیں،نتیجے میں مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہے، ملاوٹ کی چیکنگ کیلئے ادارہ ہے مگر اس کی روک تھام کیلئے کوئی میکنزم نہیں،پولیس کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی کوئی ادارہ موجود نہیں،علاقہ مجسٹریٹس خواب بن چکے، حکمران اس صدیوں پرانے کامیاب نظام کو تسلسل دینے سے گریزاں ہیں، عبرت کا نشان بننے سے بہتر ہے کہ دوسروں کے تجربات سے فائد ہ اٹھا یا جائے۔