وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے دعویٰ میں سچائی نہیں، ابھی پاکستان نے پیشگی اقدامات مکمل نہیں کیے: آئی ایم ایف

وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے دعویٰ میں سچائی نہیں، ابھی پاکستان نے پیشگی اقدامات مکمل نہیں کیے: آئی ایم ایف
سورس: file

اسلام آباد:  انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز نے کہا ہے کہ پاکستان کیلیے 1.2 ارب ڈالر بیل آؤٹ پروگرام کا 9واں جائزہ اس وقت مکمل ہو گا جب ضروری فنانسنگ ہو جائے گی تب معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔

انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون میں شائع شہباز رانا  کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے بیان میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کے فقدان کو اجاگر کیا گیا ہے۔

بیان 9ویں جائزے کو مکمل کرنے کیلیے ضروری تمام پیشگی اقدامات کو پورا کرنے کے حکومتی دعوے کی نفی کرتا ہے،آئندہ مالی سال کے بجٹ سمیت آئی ایم ایف کی ان پالیسیوں کے بارے میں جو وہ نافذ کرنا چاہتا ہے، وزارت خزانہ کے حکام اس کو ایسا مطالبہ قرار دیتے ہیں جو گول پوسٹ تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ضروری فنانسنگ اور 9ویں جائزے کی تکیمیل کیلیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ حتمی معاہدے انجام پا سکے، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے اسٹاف لیول معاہدے کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں لہذا حتمی معاہدہ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

  

آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے بیان نے اس بات کی نفی کر دی جس کا پاکستانی حکام 9 فروری سے دعویٰ کر رہے ہیں۔ جب دو طرفہ بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی تھی،ناتھن پورٹر نے ضروری فنانسنگ کی مقدار کی وضاحت نہیں کی جو پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر قرض کے حصول اور 9 ویں جائزے کی تکمیل کیلئے ظاہر کرنا ہے،جو پہلے ہی سات ماہ کی تاخیر کا شکار ہے۔

  

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کو آئندہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔

وزارت خزانہ آئی ایم ایف کے نئے مطالبے سے ناراض دکھائی دے رہی ہے۔ وزارت خزانہ کے سینئر حکام کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کو نویں جائزے کی منظوری کو بجٹ سے نہیں جوڑنا چاہیے، بجٹ کا معاملہ 11ویں جائزہ کیلیے بحث کے وقت اٹھایا جانا چاہیے، کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ تشویشناک ہے۔

مصنف کے بارے میں