آدھے دماغ کے ساتھ زندگی گزارنے والی با ہمت خاتون

آدھے دماغ کے ساتھ زندگی گزارنے والی با ہمت خاتون

کرسٹینا سین تھاؤز کی عمر 28 سال ہے اور وہ ایک سپیچ تھراپسٹ ہیں ‘ دو سال قبل انہوں نے اپنا گھر خریدا ہے اور اسی دوران شادی بھی کی لیکن ان کی زندگی میں سب کچھ ہمیشہ سے اتنا آسان نہیں تھا۔

کرسٹینا جب تیسری کلاس میں تھی تو انہیں ایک انتہائی کمیاب دماغی مرض لاحق ہوگیا جس سے ان دماغ کے سیدھے حصے کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر اس کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو یہ مرض ان کے مکمل دماغ کو تباہ کردے گا جس سے ان کی موت واقع ہوجاتی۔

باہمت کرسٹینا اس پیچیدہ اور تقریباً لاعلاج مرض میں مبتلا ہوکر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں اور انہوں نے اپنی تمام نصابی ‘ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں جاری رکھیں ‘ یہاں تک کہ ان کے مرض کی شدت اس قدر بڑھ گئی کہ انہیں بیماری کے سبب لگنے والے جھٹکوں کی تعداد ایک دن میں 150 بار تک جا پہنچی۔

ان کی والدہ کا کہنا ہےکہ’’ ہم نے ایسا کبھی نہیں سنا تھا‘ لوگ ایک گردے کے ساتھ تو زندگی گزارتے ہیں لیکن آدھے دماغ کے ساتھ زندہ رہنا‘ مجھے یہ سب انتہائی ظالمانہ لگ رہا تھا ، تاہم اپنی بیٹی کی زندگی کے لیے ہم نے یہ مشکل فیصلہ لیا۔

ان کی دماغ کی سرجری کر نے والے ڈاکٹر کارسن نے اس سے قبل محض ایک بچے کا اس نوعیت کا آپریشن کیا تھا ‘ آپریشن کی رات وہ کرسٹینا کے کمرے میں گئے اور اس سے کہا کہ ’’ آج تم اپنے لیے دعا مانگو اور میں اپنے لیے دعا مانگتا ہوں ‘ خدا ہم دونوں کو کامیاب کرے‘‘۔