افغان مسائل اور سفارتی ہلچل

افغان مسائل اور سفارتی ہلچل

امریکی افواج کے انخلا کے دوران ہی افغانستان میں بدامنی جیسے مسائل سر اُٹھانے لگے تھے مگر بظاہر غیر جانبدار لیکن دل میں طالبان سے ہمدردی رکھنے والے کچھ تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ طالبان نہ صرف معاشی مسائل پرقابوپالیں گے بلکہ پُرامن افغانستان کی منزل بھی حاصل کر لیں گے لیکن معاشی اور عدمِ استحکام کے مسائل میں کمی نہیں آئی سفارتی ہلچل ضرورہے مگرنتائج کی بجائے ا بھی تک اٹھک بیٹھک تک محدود ہے امریکی افو اج کے انخلا کے دوران کابل ائرپورٹ کے نزدیک دھماکے ہوئے جن کے خلاف امریکہ نے کچھ کاروائی بھی کی اب تو عراق و شام کی طرح عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے جیسے واقعات میںاضافہ ہوگیا ہے جس سے بدامنی کے خدشات حقیقت ثابت ہونے کے ساتھ طالبان کے ناقابلِ تسخیرہونے کا تاثر بھی مجروح ہوا ہے کیونکہ حملوں میں سویلین کے ساتھ طالبان اہلکاروں کابھی جانی نقصان ہورہا ہے دراصل افغان مسائل کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایسی تنظیمیں برسرِ پیکار ہیں جن کے پاس مہات اور تربیت ہے سابق فوجی بھی طالبان مخالف گروہوں میں پناہ تلاش کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد تنظیمیںطالبان پر حملے کرنے اور جانی و مالی زک پہنچانے میں کامیاب ہیں ۔
موسمِ سرماکے آغاز سے افغانستان میں بھوک وافلاس جیسے مسائل میں اضافہ ہو چکا ہے خوراک کے عالمی اِدارے نے دنیا کی توجہ اسی مسئلہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں سے ایک کروڑ بیس لاکھ افغانوں کوخاص طور پر خوراک کی کمی کاخطرہ ہے مگر عالمی برادری کا ردِ عمل حوصلہ افزا نہیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کو ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیاحالانکہ ہمسایہ ممالک سے روابط قائم ہوچکے ہیں پھربھی بداعتمادی کی فضا میں کمی نہیں آئی البتہ صورتحال کا جائزہ لینے اور بدامنی کے حوالے سے درپیش مسائل پر متفقہ موقف اپنانے کی غرض سے سفارتی ہلچل عروج پر ہے پھر بھی افغان مسائل کا حل اور تعمیرِ نوکاکام شروع نہیں ہو سکا تباہی کے موجب امریکہ نے تعاون کی بجائے اُلٹا افغانستان کے بارہ ارب ڈالرمنجمدکر رکھے ہیں حالانکہ تعمیرِ نو کے کاموںمیں اُسے سب سے آگے ہونا چاہیے مگر مستقبل قریب میں بھی امریکی رویے میں نرمی کے آثار نظر نہیں آتے ممکن ہے ناراضگی کی وجہ بھارت کاکردار کم ہونا اور چین ،روس اور پاکستان کا بڑھتا رسوخ ہو ۔
عالمی برادری افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پرمعمولی ہی سہی امدادکرنے کے باوجود طالبان کوتسلیم کرنے اور روابط بڑھانے میں کیوں محتاط ہے؟اِس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت آسان ہے عالمی برادری دوحہ معاہدے کے وعدوں کی تکمیل چاہتی ہے طالبات کے سکول کھولنے اور ہمسایہ ممالک کو اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے جیسی طالبان نے یقین دہانیاںکرائی ہیں جس کی بنا پر روس،چین ،ایران اور پاکستان کی طرف سے جاری امدادی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اب تو بھارت 
بھی امدادی کاموں میں حصہ لینے لگا ہے لیکن عالمی برادری کے تفکرات ختم نہیں ہوئے وجہ افغانستان میں بڑھتی دہشت گردانہ کاروائیاں ہیں داعش خراسان تنظیم نے گزشتہ ماہ ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرکے اپنی موجودگی اور طاقت کا احساس دلایا ہے جن میں قندوز کی امام بارگاہ میں ہونے والا خوفناک خود کش دھماکہ بھی شامل ہے جس میں سو سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر جب امریکی انخلا کے بعد افغانستان میںہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ سارے ملک کو ایک مرکزی حکومت کے ماتحت لانا طالبان کی غیر معمولی کامیابی ہے رواں برس ستمبر کے آغاز میں وادی پنجشیر میں احمد مسعود کی قیادت میں جنم لینے والی مزاحمتی تحریک کامیابی سے کچلی جا چکی ہے جن کے والد احمد شاہ مسعود بھی طالبان کے ہاتھوں ہی مارے گئے تھے ۔
دراصل طالبان کوئی تربیت یافتہ عسکری قوت نہیں یہ جان ہتھیلی پر رکھے نڈر لوگوں کاایک گروہ ہے اِس لیے تخریبی کاروائیوں کا قبل ازوقت توڑ کرنے میں ناکام ہیں جبکہ عالمی برادری کا فاصلہ رکھنا الگ دبائو ہے اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ امریکی تربیت یافتہ افغان انٹیلی جنس سروس اور ایلیٹ فورس کے کئی اہلکار داعش کا حصہ بن چکے ہیں جو معلومات حاصل کرنے کے ہُنر سے آگاہ اور جنگی کاروائیوں میں مہارت رکھتے ہیں اسی وجہ سے داعش جیسے دہشت گرد گروپ کو طالبان پر ایک قسم کی بالادستی ہے امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے مطابق ایک سابق افغان عہدیدار نے یہاں تک تصدیق کی ہے کہ طالبان کاروائیوں سے محفوظ رہنے کا بہانہ بنا کر افغان انٹیلی جنس کے درجنوں اہلکار داعش میں شامل ہوگئے ہیں جن میں سابق فوج کاجنوب مشرقی صوبے پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں فوجی ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ذخیرے کا سربراہ جیسا اہم آفیسر بھی شامل ہے جو بعدازاں طالبان سے ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا ایسے واقعات اِس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ افغانستان کے عدمِ استحکام جیسے مسائل میں سابق حکومت کے کئی عہدیدارشامل ہیں ممکن ہے اِس کی وجہ جان کا خوف یا بے روزگاری ہو مگر کسی بیرونی سازش کو بھی سرے سے جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ بدامنی کے زیادہ ترخدشات کا اظہار حملہ آور افواج کے ممالک کی طرف سے ہی ہوا ؟ جس کی وجہ کیا ہے ؟قبل ازوقت علم ، یا منصوبہ بندی؟اِس کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ 
افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک میں بڑے پیمانے پر صلاح و مشورے جاری ہیں اِس حوالے سے گزشتہ ماہ اکتوبر کے دوران ماسکو اور تہران میں ہونے والی دوکانفرنسیں خاص طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں2017 میںماسکو فارمیٹ کے نام سے روس نے چین ،پاکستان ،ایران اور بھارت کے علاوہ وسطی ایشیا کی پانچ ریاستوں پر پہلا مشاورتی اجلاس بلایا ماسکو فارمیٹ کے تیسرے اجلاس میں رُکن ممالک کے علاوہ امریکہ اورطالبان کو بھی دعوت دی گئی لیکن امریکہ نے شرکت نہ کی لیکن بیس اکتوبرکے ماسکو فارمیٹ کے تحت ہونے والے تیسرے اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے کچھ حد تک اتفاق نظر آیا 27اکتوبر کو تہران میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں افغانستان نے تو شرکت سے گریز کیا لیکن روس اور چین کے وزرائے خارجہ کے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب نے کانفرنس کی اہمیت بڑھا دی لیکن گزشتہ ماہ اکتوبر میں ہونے والی دونوں کانفرنسوں سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا کہ عالمی برادری یا ہمسایہ ممالک طالبان کی موجودہ عبوری حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں دونوں کانفرنسوں میں شریک ہونے والے ممالک کے نمائندوں کے اظہارِ خیال اور پھر مشترکہ اعلامیے میں طالبان سے ایک ایسی وسیع تر حکومت بنانے کا مطالبہ ضرور کیا گیا ہے جس میں ہر لسانی اور سیاسی گروہ یا جماعت کی نمائندگی ہو اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ داخلی اور خارجی پالیسیاں بین الاقوامی قوانین سے اہم آہنگ ہوں سب سے بڑی بات یہ کہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے افغان سرزمین استعمال ہونے کے حوالے سے ہمسایہ ممالک کی تشویش دور کی جائے مگردہشت گردانہ کاروائیوں اورطالبان پر ہونے والے حملوں سے یہ خیال پختہ ہوا ہے کہ سفارتی ہلچل اپنی جگہ ،مستقبل قریب میں افغانستان میں عدمِ استحکام جیسے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے ۔