کنٹینر حملہ۔۔پی ٹی آئی حقیقت پسندانہ موقف اپنائے

کنٹینر حملہ۔۔پی ٹی آئی حقیقت پسندانہ موقف اپنائے

عمران خان صاحب اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گزشتہ روز ختم کیے جانے والے لانگ مارچ کو’حقیقی آزادی مارچ‘ کا نام دینے کی وجہ اور منطق کم از کم میری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔ آزادی تو ہم پچھتر سال پہلے حاصل کر چکے اور چونکہ ہمارے دشمن نمبر ون بھارت سمیت پوری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے تو اس حساب سے یہ حقیقی بھی ہوئی، باقی بچا ’مارچ‘ تو وہ اگر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن طریقے سے کیا جائے تو یہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا حق ہے لہٰذا پی ٹی آئی بھی اس حق کا جتنا چاہے استعمال کر سکتی ہے۔
ہاں البتہ اگرپی ٹی آئی قیادت کا مطلب مادر پدر آزادی، کسی بھی قانون سے آزادی، کسی بھی ضابطہ اخلاق سے آزادی اور کسی بھی مذہبی، سماجی یا ثقافت بندش سے آزادی ہے تووہ ایک الگ بحث ہے۔
مذکورہ لانگ مارچ شروع کرنے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے دھمکی دی تھی کہ یہ مارچ ’خونی‘ بھی ہو سکتا ہے۔ پھر خان صاحب کی بات کو تڑکا لگایا ان کے کسی وقت کے دست راست فیصل واوڈا صاحب نے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ،’میں اس مارچ کے نتیجہ میں جنازے ہی جنازے دیکھ رہا ہوں‘۔
عمران خان اور فیصل واوڈا صاحب کے بیانات محض دھمکی تھے یا ان کے پیچھے کوئی انفارمیشن یا سازش موجود تھی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ لانگ مارچ کے آغاز سے ہی وہ سب کچھ ہوا کہ جس کی یہ دو اصحاب پیش گوئی کر رہے تھے۔
خیر اب اطلاع یہ ہے کہ خان صاحب کی جانب سے بلائے گئے لانگ مارچ کو پانچ چھ ہلاکتوں، متعدد افراد کے زخمی ہونے اور خود ان پر ایک جان لیوا حملہ کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔ مارچ تو ختم ہو گیا لیکن جانے اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب کون دے گا؟ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت تو کسی بھی قسم کے سوال پر نا صرف ناراض ہو جاتی ہے بلکہ
دھمکیوں اور الزامات پر بھی اتر آتی ہے لہٰذا سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سوالات کے جوابات کے حصول کے لیے کس سے رابطہ کیا جائے۔
ویسے تو کنٹینر پر فائرنگ کے نتیجہ میں چودہ افراد کے زخمی ہوئے اور ایک ہلاکت ہوئی جو کسی مجمع میں فائرنگ ہو جانے سے ہونے والے متوقع نقصان سے کافی کم ہے کیونکہ اس قسم کے واقعات میں بے شمار لوگ تو بھگدڑ کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جائے وقوعہ، محل وقوع، اردگردکا ماحول اور حقیقی عینی شاہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وقوعہ کسی بھی طور ویسا نہیں ہے جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس تحریر کے لکھے جانے تک اس معاملہ کا مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔ (یقینی طور پرایک طرف تو وقوعہ کو جس ڈھنگ سے بیان کیا جا رہا ہے اس میں کافی جھول ہے تو دوسری طرف مقدمہ کے اندراج میں اس قدر تاخیر مستقبل میں اس معاملہ کو قانونی طور پر ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں رکاوٹ ثابت ہو گی)۔
اگر بات کی جائے اب تک سامنے آنے والے شواہد کی تو ان کے مطابق آور ایک تھا اور وہ نائن ایم ایم کی پستول سے مسلح تھا۔ جس شخص نے ملزم کو موقع پر دبوچہ اس کا کہنا ہے کہ ملزم اوپر کنٹینر کی جانب صرف ایک فائر کرنے میں کامیاب ہوا تھا باقی فائر نیچے کی طرف ہوئے۔ پولیس کو موقع سے گولیوں کے گیارہ خول ملے جن میں نو پستول کی گولیوں کے تھے اور دو رائفل کی گولیوں کے۔ زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد پندرہ بنتی ہے جن میں سے دو افراد کو دو دو گولیاں لگی ہیں۔
کنٹینر کی اونچائی تقریباً بیس فٹ ہے اور ملزم کنٹینر سے مناسب فاصلہ پر تھا تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا نائن ایم ایم پستول کی رینج واقعی اتنی ہے کہ وہ اتنے فاصلہ تک مار کر سکے۔
عمران خان صاحب کی دونوں ٹانگوں میں گولیوں کے زخم بتائے جاتے ہیں۔ تو یہاں ایک تکنیکی سوال یہ بھی بنتا ہے کہ بیس فٹ نیچے سے ہونے والی فائرنگ کی زد میں ان کی ٹانگیں کیسے آ گئیں۔ پھر شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر فیصل سلطان یہ بھی فرماتے ہیں کہ عمران خان صاحب کی ٹانگوں میں گولیوں کے ٹکڑے لگے ہیں۔ اب کوئی اس اللہ کے بندے کو بتائے کہ ٹکڑے تو بم کے ہوتے ہیں پستول یا رائفل کی گولی کے نہیں۔ وہ تو لگتی ہے یا نہیں لگتی۔اس کے علاوہ عمران خان صاحب کے معالج ایک طرف فرماتے ہیں کہ ہڈی بالکل محفوظ رہی۔ تو دوسری طرف دونوں ٹانگوں پر پلستر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اب گولی کے زخم پر پلستر چڑھتے تو اس سے پہلے نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔
اگر ایک لمحہ کے لیے ڈاکٹر فیصل سلطان کے ٹکڑے لگنے والی بات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو تفتیش میں ایک نیا کٹا کھل جاتا ہے۔ یعنی اس حملہ میں یا تو بم استعمال ہوا ہے یا پھر بارہ بور کی شارٹ گن۔ ان دونوں ہتھیاروں کا ابتدائی تفتیش میں کوئی ذکر نہیں۔ یعنی ایک بات تو طے ہے کہ پولیس کو ملنے والے رائفل کی دو گولیوں کے خول اور بارہ بور گن کے استعمال کے شواہد یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ فائرنگ کنٹینر پر موجود افراد میں سے کسی کی جانب سے کی گئی۔ چلانے والے سے اسلحہ موقع پر کنٹرول نہیں ہوا یا پھر اس کے پیچھے کوئی بدنیتی یا سازش تھی یہ معاملہ تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
معاملہ سیاسی قیادت کا ہو یا عام شہریوں کا معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت واقعی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ عمران خان صاحب کو اپنے حفظ امان میں رکھے۔ یہ موقع ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی اور رویوں پر نظر ثانی کریں۔ الزام تراشی اور گالی گلوچ کی سیاست کو خیر باد کہیں، مثبت رویے اپنائیں اور تعمیری سیاست کرتے ہوئے اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوششیں کریں۔ ان سے مزید درخواست ہوگی کہ کنٹینر حملہ کے معاملہ کی تفتیش کو میرٹ پر ہونے دیں اپنے مخالف سیاستدانوں اور پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو بلاوجہ اس میں ملوث کرنے کوشش نہ کریں، یہی ان کے اپنے ان کی سیاسی جماعت کے اور پورے ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔

مصنف کے بارے میں