اعجاز الحق،ہمایوں اختر۔۔۔۔اور انار کلی کا پرانا قصہ

اعجاز الحق،ہمایوں اختر۔۔۔۔اور انار کلی کا پرانا قصہ

میں پیچھے پیچھے چل رہا تھا، وہ شرماتے شرماتے میرے سامنے، آگے آگے چل رہے تھے۔ لڑکا (مرد) پچاس پچپن کا ہوگا …… زیادہ بھی ہوسکتا ہے مگر کم نہیں۔
دلہن کے لباس میں ملبوس خاتون (لڑکی) سترہ سالہ یا اس سے کچھ کم تھی۔ جدید دور کا فیشن یعنی موبائل فون دونوں کے ہاتھ میں تھا…… اس کا روائتی انداز میں شرمانا مجھے لگتا تھا وہ کسی کھلے گٹر (مین ہول) میں نہ جاگرے اورلڑکا (مرد) شکرانے کے نوافل ادا کر نے سید ھادا تا در بار پہنچ نہ جائے……
دوسری شادی ہر مرد کی خواہش ہے۔ پارکنگ سے دوسو گز کے فاصلے تک ان کے درمیان دو تین فٹ کا فاصلہ رہا کبھی یہ فاصلہ بڑھ جاتا کبھی کم ہو جا تا اب ہم نیلا گنبد کے چوک میں تھے۔ مرد (لڑکا) یہ فاصلہ کم کرنے کی کوشش میں تھا اور لڑ کی کی خواہش تھی کہ فاصلہ رہے۔ شاید لڑ کی سمجھدارتھی یا اس نے سٹار پلس کے ڈرامے نہیں دیکھے تھے۔ اسکے شرمانے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ ”بیوی“ ہے اس پچپن سالہ لڑکے کی۔ یہ یقین سے نہیں کہاجا سکتا …… وہ بے چاری سمٹتی چلی جارہی تھی اور وہ بھاری بھر کم لڑکا اسے دھکیلتا چلا جارہا تھا۔ یہ منظر کسی حد تک اذیت ناک بھی تھا۔ کھلم کھلا خلاف ورزی تھی انسانی حقوق کی۔
پچپن سال کا ایک آدمی لڑکی دیکھنے گیا۔ لڑکی کی ماں اسے دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ہوش آنے پر وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ کہتی ہے۔ ”پچیس سال پہلے یہ کمینہ مجھے بھی دیکھنے آ یاتھا رشتے کے لیے“۔
مجھے اپنایوں ان کا پیچھا کرنا برا لگا لیکن میں اس کا ڈراپ سین دیکھنا چاہتا تھا۔ اکثر بندہ اپنے ضمیر کے خلاف حرکتیں کرتا ہے …… ”بے ضمیرا کہیں کا“…… لیکن کچھ مناظرایسے ہوتے ہیں جو ہر انسان آنکھوں میں سمولینا چاہتا ہے۔ ویسے بھی میں جب بھی انار کلی بازار جاتا ہوں تو مجھ پر عجب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ خوشبوئیں بکھری…… دل کو مہکاتی ہیں …… خوبصورت مخلوق دکانداروں کی ”خونخوار“ نظریں جیسے بچپن میں ہم نے گھر میں مرغیاں پال رکھی تھیں …… میں بچ جانے والی روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے مرغوں مرغیوں کو مخصوص انداز میں …… آ…… آآ……آآکرتا اور مرغیاں بے چاری بھوک کے مارے یا مروت میں میرا احترام کرنے کے انداز میں آ جاتیں …… روٹی کے ٹکڑے بددلی سے زہر مار کرتیں۔ شاید ان کی خواہش ہوتی تھی کہ یہ ہمیں سیب کھلائے گا، گا جر کا مربہ کھلائے یا کم از کم ریگل کے دہی بڑے یا فروٹ چاٹ……
ایسے ہی انارکلی کے دکان دار ……آآ…… آآ…… آآجا…… والی نظروں سے گھور رہے تھے۔
آپس میں وہ فقروں کا تبادلہ بھی کر رہے تھے جو مجھے دنیا کی سب سے بری اور غیر مہذب بات لگتی ہے۔ آپ کسی جگہ دس لوگ بیٹھے ہوں، دو آپس میں کانا پھوسی کر رہے ہوں، کبھی ہنس دیں، کبھی سنجیدہ ہو جائیں، بندے کو لگتا ہے کہ وہ میرے ہی بارے میں باتیں کر رہے ہوں گے…… حالانکہ ممکن ہے وہ کسی اپنے جھمیلے میں ہی الجھے ہوئے ہوں۔ بہرحال بندہ پھنس جاتا ہے ایسی نظروں کے حصار میں۔ ایسے یہ عادت مجھ میں بھی ہے۔ دوست مجھ سے محتاط رہتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ میں نے خود یہ حرکت ناپسندیدہ قرار دی ہے،اوپر کی سطروں میں تو جناب میں بہت سے لوگ کچھ حرکتیں کرتے زہر لگتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم خود وہ حرکت نہ کریں جو ہمیں بہت بری لگتی ہے زہرلگتی ہے…… اصل میں ہم سب خاصے زہریلے ہو چکے ہیں …… برائی اب ہمیں برائی نہیں لگتی۔ ہمارے ’مائی باپ‘ یعنی حکمران بھی تو جھوٹ بولتے ہیں ہم بھلا کس باغ کی مولی ہیں۔
بات جاری تھی اس جوڑے کے نیلا گنبد پہنچنے تک …… میں جس وجہ سے اس بے جوڑ جوڑے کا پیچھا کر رہاتھا وہ منظر…… میرا دل کہہ رہا تھا …… آنے ہی والا ہے…… دونوں کے جذبات کسی اورکیفیت میں بھی تھے۔ لڑکی چاہتی تھی کہ وہ بائیں طرف کسی گلی میں مڑ جائے اور ’لڑکا‘ چاہتا تھا کہ وہ ساتھ ہو کر چلے۔ ایسے میں ایک برا بہت برا منظر دیکھنے میں آیا۔لاہور کے شرارتی لڑ کے، جیسا کہ یہ سب کرتے ہیں، میرے شہر لا ہور کی شہرت خراب کرنے کے لیے،سین میں اتر آیا۔
یعنی ایک لڑکا آیا اور سیدھا ان دونوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور گز رکر فاصلہ بڑھا گیا…… یہ لوگ کتنے ظالم ہو تے ہیں جو اپنوں کے درمیان فاصلے بڑھادیتے ہیں خلیج پیدا کردیتے ہیں۔ انار کلی تو ملنے ملانے کی جگہ ہے۔ فاصلے بڑھانے کی جگہ نہیں لیکن وہ بھی ’موڈ‘ میں تھا…… وہ میرے نزدیک آیا تو میں نے کہہ دیا ”بدتمیز!“…… وہ ہنس پڑا۔اس نے سمجھا کہ میں تیسرا بھی ان دونوں کے ساتھ ہوں ……
وہ بول پڑا ”تھری ایڈیٹ!“
میری ہنسی نکل گئی۔ وہ دونوں بھی میرے زور سے ہنسنے پر پیچھے مڑ کے دیکھنے لگے۔میں نے فاصلہ بڑھادیا۔ کہیں ان کا موڈ ”آف“ نہ ہو جائے۔
وہ اب ایک دوسرے سے دور دور چل رہے تھے۔ پھر لڑکی کو شاید یکدم کوئی خیال آیا اور وہ مرد کی طرف ذرا قریب ہوگئی…… لاہور کی ہوا نے اپنا اثر دکھایا ہوگا۔ اور پھر وہ مرد کی طرف ذراز یادہ ہوتی چلی گئی قریب …… مرد تو پہلے ہی تیار تھا…… اس الجھن کا شکار ہم تینوں انارکلی کے درمیان پہنچ چکے تھے۔
”کٹ کٹ کٹ کٹ!“
ایک بوڑھا سا شخص جس نے سارا سر خضاب لگا کر کالا کیا ہوا تھا اور اس نے اِک بڑے سے برتن میں پانی ڈال کر اس میں ایک چھوٹی سی کشتی چھوڑ رکھی تھی، جو برتن کی سائیڈوں پر آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ ”کٹ کٹ کٹ کٹ“ کی آوازیں نکالتی ہوئی کشتی۔ یہ انارکلی کی شانیں ہیں جودنیا بھر میں انارکلی کی شان بڑھاتی ہیں …… مشہور مزاحیہ شاعر انور مسعود کی مشہور زمانہ نظم تو آپ نے سن رکھی ہو گی۔
تو کیہہ جانیں بھولیئے مجھے انار کلی دیاں شاناں
”ارے! یہ کیا؟“ قطب الدین ایبک بادشاہ کے مزار کے پاس انارکلی بازار میں ان دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا……
لڑکی کے انداز سے ابھی تک شرمیلا پن ظاہر ہورہا تھا۔ مرد نے ہمت کی اور اس نے لڑکی کے بازو میں بازو ڈالا۔ اب نہایت اپنائیت والے انداز میں دونوں چل رہے تھے حالانکہ ہم نے انگریزی فلموں میں دیکھا ہے کہ لڑکی مرد کے بازو میں بازو ڈالتی ہے……
وقت کے ساتھ یہ سب بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ مجھے اچھا لگا لاہور آنے والے اس نو بیاہتا جوڑے کی خواہش دیر سے ہی سہی پوری ہوئی کیونکہ بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ لاہور آنے والے خاص طور پر جو چھوٹے قصبوں یا گاؤں دیہات سے آتے ہیں نو بیاہتا جوڑے…… ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ انار کلی بازار میں بانہوں میں بانہیں ڈال کر بڑی اپنائیت کے ساتھ چکر لگا ئیں۔ ہنستے ہنستے عہدو پیماں کریں اور شہر لاہور سے حسین یادوں کے سہارے رخصت ہوں اور جب بڑی عمر کے مرد کی جوان بیوی طلاق مانگے تو وہ اسے انارکلی میں کے عہد و پیماں یاد کرا کے چپ کر اسکے کہ موبائل فون آنے سے پہلے یہ سب چل جا تا تھا مگر اب زیادہ مشکل ہے؟
آپ انارکلی اور پینڈو جوڑے میں گم ہیں۔ میں عمران خان کے مارچ میں گم۔ گرچہ یہ قصہ پرانا ہے لیکن ایسا ہی نیا قصہ ادھر عمران خان کا لانگ مارچ ملتوی ہو چکا ہے ادھر نئے آرمی چیف کی نامزدگی کسی بھی لمحے متوقع ہے۔ عمران خان روز شام اس آس پہ لاہور آجاتا تھا کہ شاید گھر والے بتائیں کہ ”اُن“ کا پیغام آگیا۔ کھانے پہ بلایا ہے۔ مجھے انار کلی والے جوڑے کا واقعہ ہمیشہ اس لیے یاد آتا ہے کہ میرا بھی دل چاہتا ہے ہاتھ کو تھام ہی لینا اچھا عمل ہے دوری ٹھیک نہیں ہوتی۔ آخر کار یہ واقعات کم ہونا ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ بیچ میں اعجاز الحق اور ہمایوں بھی تو ہیں!؟

مصنف کے بارے میں