روپے کی بے قدری اور مہنگائی

روپے کی بے قدری اور مہنگائی

 رواں برس روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے روپے کی قدرمیں کمی سے مہنگائی کو جیسے پَر لگ گئے ہیں روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خطرناک حد اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے گندم کی قیمت ملکی تاریخ کی آل ٹائم ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے صرف دو ہفتے قبل دوہزار من والی گندم اب 2430 میں دستیاب ہے بڑھتی مہنگائی کے اثرات سے نچلے طبقے جینے کی سکت چھین لی ہے اور درمیانے طبقے کی مشکلات بھی بڑھا دی ہیں اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانے بھی مہنگائی سے بلبلانے لگے ہیں کہنے کوتو وزراء ریجن کے تمام ممالک سے پاکستان میںمہنگائی کم قراردیتے ہیں مگر ایسے دعووئوں کی زمینی حقائق تائید نہیں کرتے کیونکہ لوگوں کی چیخیں بتاتی ہیںکہ مہنگائی نے سب کا جینا دوبھر کردیا ہے وزیر باتدبیر بضد ہیں کہ جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں سے پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہوئے دیگر ملکوں کی کرنسی کا ڈالر سے موازنہ کرتے ہیں لیکن اُن ملکوں کی ہم سے فی کس آمدن میں کتنا تفاوت ہے؟ کا جواب دینے کے بجائے حکومتی ترجمان خاموش رہتے ہیں۔
ڈالر کی بڑھتی قیمت اور روپے کی ماضی قریب میں ہونے والی بے قدری سے قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے وزارتِ خزانہ کی ایک محتاط رپورٹ کے مطابق روپے کی حالیہ بے قدری سے قرضوں میں دوہزار نو سو ارب روپے کا اضافہ ہواہے یہ ایسا اضافہ ہے جس کا صنعت وزراعت کو کوئی فائدہ نہیں ہوابلکہ کچھ کیے بغیر ہی قوم بیٹھے بٹھائے قرضوں کی دلدل میں مزید دھنس گئی ہے گزشتہ تین برس کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہونے والا اضافہ چالیس فیصد ہے اسی طرح یورو میں یہی اضافہ 37اور پائونڈ میں اکتالیس فیصد ہے دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں روپیہ مسلسل پسپا ہورہاہے بھارت اور بنگلہ دیشی کرنسی کی قدر بہتر ہوئی لیکن روپیہ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اِس کی وجہ کیا ہے؟ ظاہر ہے حکومتی معاشی پالیسیوں کی ناکامی ہے اسد عمر،حفیظ شیخ اور اب شوکت ترین کی صورت میں تجربات جاری ہیں مگر ابھی تک کوئی تجربہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا جس کی بنا پر پورے ملک کو ہوش رُبا مہنگائی کے سونامی کا سامنا ہے خراب معاشی حالات میں بہتر ی کی امید پر ہی قوم نے تحریکِ انصاف کو ووٹ دیے تھے لیکن نہ صرف دیگر وعدے پورے نہیں ہوئے بلکہ معاشی حالت بھی مزید دگرگوں ہوئی ہے آئندہ بھی کسی اچھی خبر کی شُنید کا امکان کم ہے خراب معاشی حالات کی بناپر حکومتی صفوں میں مستقبل کے حوالے سے خوف وہراس جنم لے رہا ہے کیونکہ روپیہ یوں ہی قدر کھوتا رہا اور مہنگائی بڑھتی رہی تو کوئی عاقبت نااندیش ہی موجودہ حکومتی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی ہمت کر سکے گا قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے آلو ،پیاز،ٹماٹرسمیت کئی سبزیوں کی برآمد پر پابندی لگانے پر سوچ وبچار کی جارہی ہے مگر برآمد کنندگان کہتے ہیں کہ برآمدات پر قدغن سے روپے پر اور بوجھ بڑھے گا اور ایسے فیصلوں سے زراعت پر مبنی معیشت مزیدمتاثر ہو گی۔
روپے کی بے قدری اور ڈالر کی قدر میں اضافے سے قرضوں کے بوجھ میں اضافے کے ساتھ برآمدات اور درآمدات کے فرق کے حجم میں بھی خوفناک اضافہ ہواہے جسے برابر کرنے یا درآمدات سے برآمدات بڑھانے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت ایسی پالیسیاں اپناتی جس سے صنعت و زراعت کی پیدوار میں بہتری آتی اِس طرح نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھتے بلکہ فی کس آمدن میں بھی اضافہ ہوتا اور مہنگائی میں بھی کمی آتی لیکن معاشی ماہرین نے اُلٹا بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو معاشی بہتری کا نسخہ سمجھ لیا ہے بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی ٹیکس کے ساتھ شرح سود بھی بڑھا دی گئی ہے ماہرین اِس فیصلے کو معیشت کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیتے ہیں کیونکہ گزشتہ ایک برس میں شرح سود کم ہونے سے معاشی سرگرمیوں میں کسی حد تک جو اضافہ دیکھنے میں آیا تھا سٹیٹ بینک کے حالیہ فیصلے سے خدشہ ہے کہ زراعت ، چھوٹی صنعتوں اور تعمیراتی سرگرمیوں میں جو بہتری کا سفرجاری تھا اب وہ بھی رُک جائے گابلکہ یہ فیصلہ چھوٹی صنعتوں کی بندش کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے لاگت زیادہ ہونے سے پیداواری سرگرمیاں متاثر ہورہی ہے اسی بنا پر تو رواں مالیاتی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران تجارتی خسارہ سات ارب ڈالر تک ہوگیا ہے یہ درست ہے کہ جب صنعتی ترقی ہوتی ہے تو جدید مشنری منگوانے ، تنصیب اور انفراسٹرکچر کی بہتری پر اخراجات بڑھتے ہیںمگرتجارتی خسارے سے بچنے کے لیے برآمدات بڑھانا بھی ناگزیر ہے حکومتیں زرِ مبادلہ کے زخائر بہتر رکھنے کے لیے برآمدات پر سبسڈی دیتی ہیں مگر ہمارے معاشی ماہرین کوبظاہر صرف تجربات کے اور کچھ کرنا نہیں آتا معاشی ماہرین نے ملک کو تجربہ گاہ بنانے اور زیرِ تربیت وزراء نے کام کے بجائے سیاست چمکانے تک ہی خود کو محدودکر رکھاہے روپے کے مقابلے پرڈالر کی قدر میں بڑھوتری کی رفتار بے قابو ہورہی ہے مگر لگتا ہے حکمرانوں کو عوام یا ملک کا احساس ہی نہیں البتہ مہنگائی کم کرنے کے بجائے مہنگائی درست ثابت کرنے کاجنون ہے کچھ ترجمان تو اِس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک سے مہنگائی کا موازنہ کرتے ہوئے بہتری ثابت کرنے پر تقاریر سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسی ہی پالیسیوں سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2021میں 1.8ارب ڈالر تک جا پہنچاہے لیکن نہ تو روپے کی بے قدری روکنے پر کام ہوا ہے نہ ہی مہنگائی پر قابو پانے کی پالیسی بنائی گئی ہے کامیاب جوان کے بعد کامیاب پاکستان پروگرام کا اجرا ہوا مگر مستفید ہونے والے کِس سیارے پر بستے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔
روپے کی قدر میں کمی کے بارے حکومتی استدلال ہے کہ اِس طرح اشیا سستی اوربرآمدات میں اضافہ ہوگا نیز تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ روپے کی قدرمیں کمی سے برآمدات سستی ہونے سے درآمدی حجم میں خطرنا ک حد تک اضافہ ہو اہے اور آمدن میں کمی سے قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کی سکت سے محروم ہونے کے قریب آرہے ہیں اور درآمدی بل بڑھنے لگا ہے اِس طرح ملکی معیشت کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے کے مترادف ہے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ایک طرف درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو ساتھ ہی ملک میں مصنوعات تیار کرنے اور عوام کو سستی اشیادینے کے منصوبے ناکامی سے دوچار ہونے لگے ہیںکیونکہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے جس سے مہنگائی کا طوفان جنم لیتا ہے ڈالر طاقتور ہونے اور روپے کی بے قدری کے رجحان کو معاشی ماہرین ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ قراردیتے ہیںمعاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونے سے سٹاک مارکیٹ میں بھی مسلسل گراوٹ آرہی ہے اِن حالات کا تقاضا ہے کہ معیشت پر تجربے کرنے اور وزراء کوزیرِ تربیت رکھنے کا کام چھوڑ کرملکی کرنسی کو سنجیدگی سے بہتر بنانے کے لیے ٹھوس پالیسی بنانے پر توجہ دی جائے امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے قابلِ عمل اور مؤثر پالیسی کا فوری نفاذ ہی روپے کی بے قدر ی روکنے اور مہنگائی کم کرنے ممدومعاون ہوسکتا ہے۔