با اختیار جنوبی پنجاب

Mohsin Goraya, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 پنجاب واسیوں کے لئے یہ بات اطمینان قلب کا باعث ہے کہ ہمارے جنوبی وسیبیوں کو تخت لاہور کی قید سے آزادی مل گئی ہے،امید ہے کہ وہ وقت بھی جلد آئے گا جب آئینی ضرورتیں پوری ہونے کے بعد جنوبی پنجاب باقاعدہ طور پر ایک صوبہ بھی بن جائے گا مگر جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کے اپنے صوبہ میں جو اختیارات اور آسانیاں حاصل ہونا تھیں ان میں سے نوے فیصد سے زیادہ ان کو ایک با اختیار جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام سے مل گئی ہیں۔اکثر سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کو بااختیار اور ایک علیحدہ صوبہ بنانے کی باتیں کرتی تھیں مگر اس سلسلے میں عملی طور پر کسی نے کچھ نہ کیا حالانکہ اس ملک اور پنجاب میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے درجنوں سیاستدان وزیر اعظم، صدر مملکت اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر بھی متمکن رہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جس عثمان بزدار کو ہم سب ایک بے اختیار اور نہ جانے کیسا کیسا وزیر اعلیٰ قرار دیتے تھے وہ نہ صرف جنوبی پنجاب کے لوگوں کا مسیحا بنا بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ایک مضبوط اور کام کرنے والا با اختیار وزیر اعلیٰ ہے،جو پورے پنجاب کے لوگوں کا درد رکھتا ہے۔ہفتہ کے روز وہ چار گھنٹے تک ایک پاؤں پر کھڑا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب،لاچار اور عام لوگوں کے مسائل نہ صرف سنتا رہا بلکہ ان میں سے اکثر کو موقع پر حل بھی کر دیا،میں نے لاہور یوں کے لئے بھی اسے ایسا ہی بے چین پایا۔ 
جنوبی پنجاب ایک الگ صوبہ کی تحریک کو ماضی کی کسی سیاسی جمہوری حکومت نے اہمیت نہ دی،مگر عمران خان کے منشور کا، جنوبی پنجاب صوبہ ایک اہم حصہ تھا،اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے ایک بیٹے کے سر پر پنجاب کی پگ رکھی،اور اس نے بھی اس پگ کو داغ لگانے کے بجائے اجلااور شفاف بنا دیا،جنوبی پنجاب صوبہ کو زبان کی بنیاد پرخو د مختاری دینے کے بجائے انتظامی بنیاد پر صوبہ بنانے کا فیصلہ بھی مدبرانہ ہے،ورنہ پاکستان کے صوبوں کی پہچان ہی مقامی زبانیں بن چکی تھیں اور اس سوچ نے ملکی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا،محمود اچکزئی پشتو کی بنیاد پر افغانستان سے مل کر پختون ریاست بنانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں،جی ایم سید نے سندھو دیش کا نعرہ بلند کیا،سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والے مہاجروں کیلئے کراچی الگ صوبہ کے مطالبے کیساتھ بانی ایم کیو ایم نے نفرت و تعصب کا جو الاؤ دہکایا اس کو دیکھتے ہوئے زبان کی بنیاد پر نئے صوبہ کی تشکیل کسی بھی حوالے سے مناسب نہ تھی۔
 اگر چہ جنوبی پنجاب کو باقاعدہ صوبہ بنانے کیلئے ابھی بہت سے آئینی اقدامات کی ضرورت ہے،فوری طور پر یہ صوبہ ایک انتظامی یونٹ ہو گا جیسے گلگت بلتستان ہے،اس کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے جس کیلئے سیاسی ہم آہنگی اور یکسوئی کی ضرورت ہے جو کہیں دکھائی نہیں دے رہی،مگر موجودہ پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کیلئے رولز آف بزنس میں کئی بار ترامیم کی منظوری دی ہے،جس کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ کو مالی اور انتظامی طور پر با اختیار بنا دیا گیا ہے،نئے صوبہ کے سیکرٹری صاحبان پنجاب کے سیکرٹریوں کی طرح اپنے محکموں کو چلانے میں مکمل آزاد اور خود مختار ہوں گے، تمام سیکرٹری صاحبان اپنے محکموں کے ملازمین کو(صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
 ترقی، بھرتی، تبادلے اور چھٹیاں دینے میں با اختیار ہوں گے،ان کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو ایک باقاعدہ آئینی صوبہ کے سیکرٹری کو حاصل ہوتے ہیں،اس حوالے سے جنوبی پنجاب کے منتخب ارکان کو تحفظات تھے،ان کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بننے کے باوجود انتظامی مشینری بے اختیار ہے،تحفظات کے خاتمے کیلئے پہلے بھی رولز میں دو مرتبہ ترامیم کی گئیں مگر منتخب ارکان اور عوام مطمئن نہ تھے جن کے اطمینان کیلئے پنجاب کابینہ نے رولز میں نئی ترامیم کی منظوری دی،اس ترمیم کے تحت جنوبی پنجاب صوبہ کے تمام سیکرٹریز اپنے محکمہ میں گریڈ اٹھارہ تک کے افسروں اور نچلے درجے کے ملازمین کے تقرر تبادلہ ترقی کے بارے میں با اختیار ہوں گے۔
 جنوبی پنجاب تین ڈویژنز اور 11اضلاع پر مشتمل ہو گا،17اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب کے تمام سیکرٹری محکمانہ معاملات میں آزاد اور خود مختار ہوں گے،جنوبی پنجاب کیلئے 33فیصد بجٹ بھی خوش آئند ہے،اے ڈی پی، بک بھی پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے الگ مرتب کی جائے گی،نئے صوبہ کیلئے سروس ٹربیونل کی بھی منظوری دی گئی ہے،اس تاریخی اقدام سے سے کروڑوں سرائیکی وسیبیو ں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں گے،انہیں بار بار لاہور کی یاترا نہیں کرنا پڑے گی،اخراجات اور وقت کی بھی بچت ہو گی،اور سب سے بڑھ کر نفرت کا خاتمہ ہو گا،وزیر اعظم بہت جلد بہاولپور میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری بھی مکمل طور پر با اختیار ہوں گے۔
 آئینی رکاوٹوں کی وجہ سے خزانہ،داخلہ،ریونیو،قانون اور ایس اینڈ جی اے ڈی کے محکموں کا اختیار فی الحال ہائر لیول پر لاہور میں رکھا گیا ہے مگردستوری آئینی رکاوٹیں دور ہونے کے بعد یہ محکمے بھی جنوبی پنجاب کے حوالے کر دیئے جائیں گے،فوری طور پر ایڈیشنل و اسسٹنٹ کمشنروں کے تبادلہ و تقرری کا اختیار ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو تفویض کر دیا گیا ہے،جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے،انفراسٹرکچر کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرے مرحلے میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کو مقامی سطح پر منتقل کرنے سے مقامی لوگوں کے اکثر و بیشتر مسائل مقامی طور پر حل ہونے لگے ہیں،جو مقامی لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا،یہاں ایک بات جو تاریخی حقیقت ہے وہ بھی ملحوظ رہنی چاہیئے ماضی میں صوبائیت کا جو تعصب ابھرا تھا اس کی وجہ بھی ون یونٹ تھا جب سندھ،بلوچستان،کے پی کے کے عوام کو چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرانے کیلئے لاہور آنا پڑتا تھا،مگر ون یونٹ ٹوٹتے اور صوبے بنتے ہی یہ تعصب کافی حد تک ختم ہو گیا تھا،اب جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام سے پنجاب کے اندر پلنے اور سر اٹھانے والی پنجابی سرائیکی نفرت بھی ختم ہو جائے گی اور جب جنوبی پنجاب، ایک صوبہ بن کر مکمل با اختیار ہو جائے گا تو نفرت بھائی چارے میں بدل جائے گی،یہ اقدام عمران خان اور عثمان بزدار کا صوبہ اور صوبہ کے عوام پر بہت بڑا احسان ہے جو مستقبل میں یاد رکھا جائے گا۔
محسن گورایہ