امریکی فوج کی تاریخ میں انخلا کا سب سے بڑا غیر جنگجو مشن ,اب کیا ہوگا؟

Afghanistan,Kabul,US Forces,Afghan Peace Process

31اگست کو جنوبی ایشیائی خطے میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی جب سالہا سال سے حالت جنگ میں رہنے والے ملک افغانستان سے 20 سال بعد امریکی فوج کا مکمل طورانحلاء ہوگیااسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کوافغانستان میں وہ ایک ایسی شکست کا سامنا کرناپڑا جس کا اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھااور امریکا نے ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے انخلا مکمل کرلیا۔حامد کرزئی ایئر پورٹ سے آخری 3 امریکی جہاز روانہ ہو گئے جس کی تردید امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے بھی کی، ان کے بیان کے مطابق کابل ایئر پورٹ سے آخری امریکی پرواز روانہ ہو گئی ہے سکیورٹی صورت حال خراب ہونے کے بعد انہوں نے پلان بھی تبدیل کیا۔انہوں نے طالبان پر واضح کیا تھا کہ اپنا اور اتحادیوں کا انخلا مکمل کریں گے جبکہ طالبان کو بتا دیا تھا کہ انخلا میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔آخری امریکی پرواز کہاں روانہ ہوئی جس کے بارے میں انہوں نے بتانے سے گریز کیا۔جنرل میکنزی نے کہا کہ یہ امریکی فوج کی تاریخ میں انخلا کا سب سے بڑا غیر جنگجو مشن تھا،امریکی فوج نے ایک دن میں 7500 سے زیادہ شہریوں کا انخلا یقینی بنایا جو ایک تاریخی کامیابی ہے۔افسوس ہے کہ انخلا کے آخری دنوں میں 13 امریکی جانیں گئیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکا امریکی، افغان اور دیگر ایسے افراد کی مدد کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا، جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ تقریباً 200 امریکی شہری اب بھی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف امریکی صدر جوبائیڈن نے  افغانستان سے مکمل انخلا کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا کہ اپنے کمانڈرز اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔جوبائیڈن کا کہنا تھا گزشتہ20 دنوں میں امریکی فوج نے تاریخی ہوائی آپریشن کیا جبکہ آج افغانستان میں ہماری 20 سالہ موجودگی ختم ہوگئی۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انخلا آپریشن کے دوران ایک لاکھ20ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا جبکہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی پینٹاگون نے بھی تصدیق کردی ہے۔
افغانستان سے آخری امریکی پرواز اورفوجی کے نکلتے ہی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان نے آج مکمل آزادی حاصل کر لی،پیر کی درمیانی شب اور منگل کی علی الصبح جیسے ہی امریکا کے آخری جنگی طیارے سی 17 نے کابل سے واپسی کی تیاری شروع کی، طالبان نے حامد کرزئی ایئر پورٹ کی سکیورٹی اپنے کنٹرول میں لے لی۔ طالبان قیادت نے اس امریکی اقدام کی تعریف کی اور کہا کہ افغانستان کو اب مکمل آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ انہوں نے اسے، ''تاریخی لمحہ'' قرار دیا۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’آج کی شب افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق 12 بجے، باقی بچے ہوئے امریکی فوجی بھی کابل ایئر پورٹ سے نکل گئے اور اس طرح ملک مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔ان کا کہنا تھا کہ آخری امریکی فوجی31اگست رات 12 بجے افغانستان سے نکل گیا۔الحمد اللہ۔ 
آخری پرواز کے فوراً بعد کابل شہر کی مختلف چیک پوائنٹوں پر جشن منانے کے لیے فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔طالبان رہنما انس حقانی نے کہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں ایک بارپھرتاریخ رقم کردی۔افغانستان پر امریکی اورنیٹو افواج کا20سالہ قبضہ ختم ہوگیا۔20سالہ جہاداورقربانیوں کے بعد یہ تاریخی لمحات قابل فخر ہیں۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان صرف افغانیوں کا ہے اور افغانی کسی کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد ہی ہمارا منظر عام پر آنے کا ارادہ تھا اور امریکہ کی نااہلی اس بات سے ثابت ہے کہ اس سے ایک ایئرپورٹ نہیں سنبھالا جا رہا تو وہ پورے افغانستان کو کیسے سنبھال سکتا تھا۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اتحادیوں کے مقابلے میں امریکہ نے افغانستان میں زیادہ قربانیاں دی ہیں۔سابق افغان صدر اشرف غنی سے سکیورٹی صورتحال سنبھالی نہیں گئی اور وہ کابل چھوڑ گئے۔طالبان ترجمان کا یہ بھی کہناتھا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور ہمیں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔افغانستان کے حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ داعش ایک مسئلہ ہے لیکن بیرونی افواج کے انخلا کے بعد ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جو عالمی برادری کو منظور ہو ، کابل میں نئی تبدیلیاں مثبت ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام چاہتی تھی کہ غیر ملکی قوتیں یہاں سے چلی جائیں اور ایسا ہو گیا پنج شیر کے علاوہ پورے افغانستان میں امن ہے۔انہوں نے طالبان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کو شریعت کی رو سے کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انحلاء کے بارے بات چیت کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہمارا واحد مقصد افغانستان میں امن کے حصول میں مدد دینا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکی ناظم الامور انجیلا ایگلر سے جی ایچ کیو میں ملاقات میں کیا۔آرمی چیف نے کہا کہ ہمارا مقصد خود مختار، مستحکم اور خوشحال افغانستان ہے۔انہوں نے کابل ایئرپورٹ پر دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی اور  قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کیا۔ملاقات میں آرمی چیف نے دہشت گردی اور انتہاپسندی سے لڑنے کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔امریکی ناظم الامور نے علاقائی امن اور استحکام کے فروغ میں پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور کابل سے انخلا کے آپریشنز میں خصوصی تعاون پر آرمی چیف سے اظہار تشکر کیا۔
افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے امریکیوں کی اکثریت ناخوش ہے امریکی فورسز کے افغانستان سے مکمل انخلاء سے قبل کرائے گئے ایک سروے کے مطابق تین چوتھائی امریکیوں کا کہنا تھا کہ تمام امریکی شہریوں کے انخلاء تک امریکی فورسز کو وہاں رہنا چاہیے تھا۔ رائے شماری کے مطابق صرف 38 فیصد شہریوں نے افغانستان سے امریکی فورسز کی مکمل واپسی کی تائید کی جبکہ 51 فیصد نے صدر بائیڈن کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور تین چوتھائی لوگوں کا کہنا تھا کہ جنگ زدہ ملک سے تمام امریکی شہریوں کی واپسی تک امریکی فورسز کو وہاں رہنا چاہیے تھا۔ یہ ملک گیر سروے 27 سے 30 اگست کے درمیان کرایا گیا۔صرف 13فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کو افغانستان’’فوراً چھوڑ دینا" چاہئے تھا۔جب لوگوں سے امریکا کے افغان اتحادیوں کی بازآبادکاری کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کے اقدامات کے متعلق پوچھا گیا تو 45 فیصد نے اس کی تائید کی جبکہ 42 فیصد نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔اس رائے شماری میں ایک ہزارچار افراد نے حصہ لیا، جس میں 465 ڈیموکریٹ اور 354 ری پبلیکن شامل تھے۔
رائے شماری کے مطابق 20فیصد بالغ امریکیوں کی رائے میں افغانستان کی جنگ میں ’’موجودہ صورت حال کے لیے بائیڈن سب سے زیادہ" ذمہ دار ہیں۔ دس فیصد لوگوں نے اس کے لیے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو مورد الزام ٹھہرایا۔ جنہوں نے دو دہائی قبل افغانستان پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ نو فیصد لوگوں کے مطابق موجودہ صورت حال کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذمہ داری ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس امریکی فورسز کی تیز رفتار انخلاء کے حوالے سے معاہدے کیے تھے۔بائیڈن انتظامیہ کو اس ماہ ایک ساتھ تین تین مسائل سے نبردآزما ہونا پڑ رہا ہے۔ ان میں کورونا وائرس کی وبا اور سمندری طوفان آئڈا شامل ہیں۔امریکا کے ٹوئن ٹاورز پر گیارہ ستمبر 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکی فوج نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کو اقتدار سے معزو ل کردیا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ دو دہائیوں تک جنگ کے بعد 31اگست کو امریکا کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا۔کابل پر 14 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد سے امریکا اپنے شہریوں اور افغان شہریوں سمیت ایک لاکھ 22 ہزارسے زیادہ لوگوں کو افغانستان سے باہر نکال لایا۔خیال رہے کہ 20 سالہ جنگ کے دوران 2400 سے زائد امریکی فورسز مارے گئے جب کہ تقریباً دو لاکھ 40 ہزار افغان ہلاک ہوئے۔ اس جنگ پر امریکا کے دو ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انحلاء سے قبل دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں اس حوالے سے دلچسپی دیکھی جا رہی تھی۔ تجزیہ نگار تواتر سے کہہ رہے تھے کہ امریکی فوج کے انخلاء  کے بعد افغانستان کے حالات کو پْرامن اور معمول پر رکھنا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد اس کے مستقبل کے بارے میں عالمی سطح پر یہ سوال کیا جا رہاتھا کہ کیا افغان طالبان دوبارہ وہاں قابض ہونے والے ہیں اور کیا وہاں دوبارہ 90کی دہائی والے حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں؟یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ستمبر میں مکمل ہونا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یہ دیکھا گیا کہ مختلف صوبوں میں افغان فوج اور پولیس کے یونیفارم میں ملبوس سرکاری دستے طالبان کمانڈروں کے سامنے ہتھیار پھینک کر ان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرتے رہے اور ہر دوسرے دن افغانستان سے افغان طالبان کے مختلف صوبوں کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی خبریں سامنے آتی رہیں جس سے افغان حکومت کا کنٹرول روز بروز کمزور ہوتا گیا۔بین الاقوامی مبصرین یہ بات تسلسل سے کہہ رہے تھے کہ امریکی فوج کی موجودگی کے بغیر افغانستان کی سول حکومت اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ وہاں کے تمام صوبوں پر اپنی رِٹ قائم رکھ سکے۔ان حالات میں افغان عوام کے ذہنوں میں مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں اور پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا؟ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں بیس سال سے جاری جزوی ترقی کا عمل رک جائے گا؟ کیا خانہ جنگی کے سبب ایک مرتبہ پھر افغانستان سے بڑی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے؟ اور اگر افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی لہر آئی تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
 حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن اور سابق افغان صدر اشرف غنی کی آخری فون کال کی ویڈیو بھی منظرعام پرآئی ہے جس میں دونوں نے فوجی امداد اور سیاسی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا تھا لیکن دونوں کو طالبان کی برق رفتار کامیابی کا بظاہر نہ تو اندازہ تھا اور نہ اس کے مقابلے کے لیے تیار تھے۔یہ گفتگو 23 جولائی کوہوئی۔ دونوں رہنماوں نے تقریباً 14منٹ تک بات چیت کی۔15 اگست کو اشرف غنی صدارتی محل چھوڑ کر ملک سے فرار ہوگئے۔صدر بائیڈن فون کال کے دوران اشرف غنی سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے عوامی طورپر کوئی منصوبہ پیش کر سکتے ہیں۔’’اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ کیا منصوبہ ہے، تو ہم فضائی امداد فراہم کرنا جاری رکھیں گے۔"  اس فون کال سے چند دنوں قبل امریکا نے افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے تھے۔طالبان نے ان حملوں کو دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔امریکی صدر نے اشرف غنی کو طالبان کے خلاف پیش قدمی کے لیے ایک مضبوط فوجی حکمت عملی مرتب کرنے اور ایک ’بہادر جانباز‘ کو اس کا انچارج بنانے کا مشورہ بھی دیا تھا جس کے بعد جنرل بسم اللہ خان محمدی کو وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔
بائیڈن نے امریکی حکومت کی مالی امداد سے تربیت یافتہ افغان مسلح افواج کی تعریف کرتے ہوئے اشرف غنی سے کہا،’’صرف ستر۔ اسی ہزار کے مقابلے میں آپ کے پاس تین لاکھ بہترین تربیت یافتہ فورس ہے جو پوری پامردی کے ساتھ لڑ سکتی ہے۔" لیکن اس کے چند دنوں بعد ہی افغان فورسز کوکسی مقابلے کے بغیر یا معمولی مزاحمت کے بعد طالبان کے سامنے ہتھیارڈالتے ہوئے دیکھا گیا۔بات چیت کے دوران بیشتر وقت بائیڈن مسائل کے حوالے سے افغان حکومت کے نقطہ نظر پر گفتگو کرتے رہے۔’’میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں اور افغانستان کے مختلف حصوں میں لوگ کیا سوچتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کے خلاف جنگ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور، خواہ یہ درست ہے یا نہیں، لیکن ایک مختلف تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔"بائیڈن نے اشرف غنی کو مشورہ دیا کہ اگر افغانستان کی اہم سیاسی شخصیات کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی جائے، جو نئی فوجی حکمت عملی کی حمایت کریں، تو اس سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔" اشرف غنی نے بائیڈن سے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ’’فوجی حل کو ازسر نو متوازن کرسکیں" تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کام بڑی تیزی سے کرنا ہوگا۔اشرف غنی کا کہنا تھا،’’ہم طالبان کے ایک مکمل حملے کا مقابلہ کررہے ہیں جسے پاکستان کی مکمل منصوبہ بندی اور لوجسٹک سپورٹ بھی حاصل ہے۔اس میں کم از کم دس سے پندرہ ہزار بین الاقوامی دہشت گرد شامل ہیں جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔افغان حکومت کے عہدیداران اور امریکی ماہرین مسلسل دعوی کرتے رہے ہیں کہ پاکستان طالبان کی مدد کررہا ہے حالانکہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ان الزامات کی تردید کی ہے  دراصل اشرف غنی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسی غلط باتیں کرتے رہے ہیں۔
امریکی صدر اور اشرف غنی کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا ذرابھی اندازہ نہیں تھا کہ صرف 23 دن کے بعد ہی ایک زبردست حملہ ہوگا اور سب کچھ منہدم ہوجائے گا۔ بائیڈن نے اشرف غنی سے کہا تھا،’’ہم سفارتی، سیاسی اور اقتصادی طورپوری طاقت کے ساتھ مقابلہ جاری رکھیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بناسکیں کہ نہ صرف آپ کی حکومت باقی رہے بلکہ یہ برقرار بھی رہے اور ترقی بھی کرے۔"بائیڈن اور اشرف غنی نے افغانستان میں جاری سیاسی رسہ کشی پر بھی گفتگو کی تھی۔جب بائیڈن نے اشرف غنی سے پوچھا کہ سابق صدر حامد کرزئی کو پریس کانفرنس میں شامل کرنا کیسا رہے گا تو غنی نے اسے مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا’’کرزئی سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔ وہ ایک مختلف قسم کے آدمی ہیں۔ وقت بہت قیمتی ہے اور ہم ہر شخص کو اس میں شامل نہیں کر سکتے۔ ہم نے مہینوں صدر کرزئی سے بات چیت کی، آخری مرتبہ میں نے ان سے 110 منٹ تک طویل گفتگو کی لیکن وہ مجھے لعنت ملامت کرتے رہے۔ وہ مجھ پر امریکا کی چمچہ گیری کرنے کا الزام لگاتے رہے"اس پر بائیڈن نے کہا ’’ٹھیک ہے میں اپنا مشورہ واپس لیتا ہوں۔"اس معاملے پر کرزئی کی رائے معلوم کرنے کے لیے ان سے رابطہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان اس آخری ٹیلی فونک گفتگو کے کوئی دو ہفتے کے اندر ہی طالبان نے افغانستان کے بیشتردارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا جس کے بعد امریکا نے کہا کہ اپنے ملک کا دفاع کرنا افغان سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے۔
 افغانستان سے مکمل امریکی انخلا کے بعد قندھار میں یکم ستمبر کو آزادی کا جشن منایا گیا اس سلسلے میں انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک بڑے اجتماع کا انعقاد بھی کیا گیا ہے جس میں امیر المومنین شیخ ملا ہیبت اللّٰہ اخوند نے شرکت کی۔گورنر قندھار حاجی یوسف وفا نے اجتماع گاہ پہنچ کر سجدہ شکر ادا کیا اس اجتماع میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔گورنر قندھار حاجی یوسف وفا نے عوام سے اپیل کی  کہ ملک نہ چھوڑیں آپ کو تحفظ اور امن دینا ہماری ذمہ داری ہے۔گورنر قندھار کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مل کر ملک کے لیے کام کریں اور آگے بڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے تمام عہدیداروں و اہلکاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جاچکا ہے عوام نظام کی ترقی میں اپنی حمایت اور تعاون جاری رکھیں۔ قندھار شہر کی سڑکوں پر جنگی ساز و سامان سے لیس فوجی گاڑیوں نے گشت کیا جبکہ شہر کی فضائی نگرانی جنگی ہیلی کاپٹروں سے کی گئی۔