یہ بھی ہو سکتا تھا!

یہ بھی ہو سکتا تھا!

پارک کی رونق میں اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ واک کرنے میں مصروف تھے۔ یہ گرمیوں کی ایک حسین صبح تھی، رات اپنی زندگی پوری کر چکی تھی اور دن کی آمد نے رات کی حکمرانی کا سفر تمام کر دیا تھا۔ پرندے درختوں پر بیٹھے اللہ کی تسبیح بیان کر رہے تھے۔ صبح سانس لے رہی تھی اورشمال سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا موسم کو مزید خوشگوار بنارہی تھی۔رات بھر پڑنے والی اوس سے زمین پر بچھا سبزے کا قالین نکھر چکا تھا اور پھول پودے انگڑائی لے رہے تھے۔دور افق کے مشرقی کنارے سے سورج خراما ں خراماں آگے بڑھ رہا تھا اور اپنا دیدار کرانے کے لئے بیتاب تھا۔میں واک کے بعد بینچ پر بیٹھ گیا تھا، سامنے والی بینچ پر ایک پروفیسر صاحب بیٹھے مراقبے میں مشغول تھے۔ہمارا معمول تھا کہ واک کے بعد ہم کچھ دیر مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔مجھے لکھنے کا شوق تھا اور پروفیسر صاحب بولنے کے ماہر تھے سو ہماری یہ بے تکلفی ہمارے کئی کئی گھنٹے نگل جاتی تھی۔ پروفیسر صاحب پچھلے ایک ہفتے سے کافی خاموش رہنے لگے تھے اور ان کی یہ خاموشی میرے لیئے بڑی معنی خیز تھی۔ میں واک کے بعد ان کے پا س بیٹھا توہماری گفتگو شروع ہو گئی۔ باتوں باتوں میں،میں نے ان کی خاموشی کی وجہ پوچھے تو وہ بولے ”پچھلے ہفتے میری نواسی کا انتقال ہو گیاتھا اور میں ابھی تک اس کرب سے با ہر نہیں نکل پایا ہوں۔ وہ مجھ سے بہت مانوس تھی اور میں اس سے بہت پیا ر کرتاتھا، پتا نہیں اللہ میاں ایسا کیوں کرتے ہیں وہ ہنستے بستے گھر کیوں اجاڑ دیتے ہیں،میں پچھلے ایک ہفتے سے سوچ رہا ہوں کہ اللہ نے مجھ سے میری نواسی کیوں چھین لی حالانکہ اس نے تو کوئی گنا ہ نہیں کیا تھا اور وہ با لکل معصوم تھی۔“وہ مزید بولنا شروع ہوئے ”دو ہفتے پہلے روڈ ایکسیڈنٹ میں میرے بیٹے کا ایک بازو ٹوٹ گیا تھا، مجھے پچھلے دو ماہ سے مسلسل کھانسی کی شکایت ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا چھ ماہ سے ڈگری ہاتھ میں لئے نوکری ڈھونڈ رہا ہے لیکن اسے کوئی نوکری نہیں مل رہی،پتا نہیں اللہ میاں ساری مصیبتیں ہم پر ہی کیوں نازل کر تے ہیں“۔میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی نواسی سے بے پنا ہ محبت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔
میں نے عرض کیا ”سر آپ کے کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں“وہ بولے ”پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں 
“میں نے پوچھا ”ان میں سے کتنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں“ وہ بولے ”چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور ایک بیٹا ابھی باقی ہے“ میں نے پوچھا ”جو شادی شدہ ہیں ان کی اولاد بھی ہو گی“وہ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ”میرے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی تعداد چودہ ہے۔“میں نے عرض کیا ”سر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے پچھلے چالیس سال سے آپ کی اولاد کی حفاظت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے پچھلے چالیس سال سے انہیں ہر طرح کی آفت اور حادثات سے محفوظ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ پچھلے بیس سال سے آپ کے چودہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی بھی حفاظت کر رہے ہیں، جس ذات نے پچھلے چالیس سال سے آپ کے آٹھ بیٹے بیٹیوں اور بیس سال سے آپ کے چودہ نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی حفاظت کی ہے آپ اس ذات کے ان عظیم احسانات کو ایک سائیڈ پے رکھ دیتے ہیں اور صرف ایک نواسی کی موت پر ان تمام احسانات کو بھلا دیتے ہیں اور گزشتہ چالیس سال سے اللہ نے آپ کی اولاد کوجو موت سے بچایا ہوا تھا اور ان کی ہر طرح سے حفاظت کی تھی آپ اس کا یکسر انکار کر دیتے ہیں۔آپ دیکھیں اس وقت آپ کی اولاد کہاں کہاں آ باد ہے؟ آپ کے آٹھ بیٹے اور بیٹیا ں کاروبار اور ملازمت کے سلسلے میں ملک کے آٹھ اضلا ع میں مقیم ہیں،آگے ان کی اولاد بھی روزگا راور تعلیم کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہے،گویا آپ کے آٹھ بیٹے بیٹیاں اور چودہ نواسے نواسیاں جو کل ملا کر بائیس بنتے ہیں،آپ کو پچھلے بیس تیس سال سے ان بائیس افراد کی طرف سے کبھی کوئی بری خبر نہیں ملی۔ حالانکہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آج سے دس سال پہلے ہی کسی بیٹے بیٹی یا نواسے نواسی کی موت کی خبر مل جاتی، کسی روڈ ایکسیڈنٹ کی خبر مل جاتی،کسی کے زخمی ہونے، کسی کو کینسر ہونے اور کسی کے وفات پاجانے کی خبر مل سکتی تھی لیکن قدرت نے ایسا  نہیں کیا او ر آپ کو اس طرح کی ہر بری خبر سے محفوظ رکھا۔قدرت چاہتی تو آپ کو اس طرح کی خبریں پے درپے اور بار بار مل سکتی تھیں لیکن آپ اس طرف دھیان نہیں دیتے اور آپ صرف ایک دن کی بری خبر کولے کر پچھلے چالیس سال کی اچھی خبروں کو بھول جاتے ہیں، آپ ماضی کے ان تمام لمحات اور واقعات کو بھول جاتے ہیں جن میں اللہ نے آپ کو ان جیسی سیکڑوں ہزاروں بری خبروں سے بچا کر رکھا ہے۔“ پروفیسر صاحب حیرت سے میری طرف دیکھے جا رہے تھے، ان کی حیرت بجا تھی کیونکہ آج تک میں ان کا صرف ایک خاموش سامع تھا،وہ روزانہ اپنی پروفیسری جھاڑتے تھے اور میں خاموشی سے سنتا رہتا تھا۔
 میں نے دوبارہ عرض کیا:”سر آپ نے اپنی بیماری کی بات کی، آپ بتائیں آپ کی عمر کیا ہے“ وہ بولے ”ساٹھ سال“ میں نے عرض کیا ”اگر آپ کی عمر واقعی ساٹھ سال ہے تو آج تک آپ اپنی زندگی کے 21900 دن اور525600گھنٹے گزار چکے ہیں،آپ بتائیں صحت،توانائی اور زندگی سے بھرپوران ساٹھ برس، 21900دنوں اور 525600گھنٹوں میں آپ نے اس عظیم احسان پر اللہ کا کتنی بار شکریہ ادا کیا، اللہ نے آپ کو صحت، توانائی اور طاقت سے بھرپور زندگی کے 21900دن اور 525600 گھنٹے فراہم کئے لیکن آپ نے ایک بار بھی ان نعمتوں اور احسانات کا شکریہ ادا نہیں کیا لیکن صرف چند دنوں کی معمولی کھانسی کو لے کر آپ نے شکوے اور شکایتوں کی دکان کھو ل لی، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ان ساٹھ برس میں اللہ نے آپ کو دنیا کی ہر وہ نعمت دی جس کی آپ نے خواہش کی،آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ آج تک کتنی خوراک کھا چکے ہیں، کتنے گیلن پانی اور دودھ پی چکے ہیں، کتنی ہو اکو آپ نے بطور آکسیجن استعمال کیا ہے، سورج سے کتنی روشنی اور حرارت لے چکے ہیں، ستاروں بھری رات اور چاند کی چاندی سے آپ نے کتنا لطف اٹھایا ہے، آپ نے بارشوں، ہواؤں، قدرتی مناظر اور سردیوں کی دھوپ کو کتنا انجوائے کیا ہے۔آپ خود پڑھے لکھے ہیں، آپ کی ساری اولاد پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر کام کر رہی ہے، کیا آپ اس دکھ اور کر ب کو جان سکتے ہیں جو ان والدین کواٹھانا پڑتا ہے جن کی اولاد پڑھ لکھ نہیں سکتی، جو غلط راہوں پر چل نکلتی ہے،کیا آپ ان والدین کے دکھ درد کا اندازہ کر سکتے ہیں جن کی جوان اولاد اچانک کسی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔ سر آپ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ اب تک اس نے آپ کو ہر طرح کے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھا ہے اور ابھی تک آپ نے کوئی دکھ اور کوئی مصیبت نہیں دیکھی۔“سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا، میں سانس لینے کے لئے رکا پروفیسر صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ ا اسے زور سے دبایا اور نمناک آنکھوں سے بولے: ”بیشک انسان ناشکرا ہے“۔

مصنف کے بارے میں