سیلاب اور خواب

سیلاب اور خواب

وطن عزیز اس وقت سیلاب کی زد میں ہے، اطلاعات ہیں کہ ملک کا 76 فیصد رقبہ سیلابی ریلے کی یلغار میں ہے، 3 کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اموات کا ابھی کچھ اندازہ نہیں لیکن ہزاروں میں ہے۔ ہنستے بستے گاؤں، شہر آن کی آن میں پانی میں بہہ گئے۔ مسجدیں بچیں نہ درگاہیں، مزار بچے نہ مدرسے، گھر بچے نہ بازار۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ سیلاب آیا میرے بڑے بھائی معظم بٹ (جنت مکین) جیل روڈ کے چیئرمین رہے، کے پاس عظیم فنکار اور ہردلعزیز فلمسٹار محمد علی بیٹھے تھے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر تھا جناب محمد علی جذباتی انداز میں پورے کرب کے ساتھ کہنے لگے کہ دلہنوں کے جہیز بہہ گئے، بہنوں کے بھائی مر گئے، بیٹیوں کے بابل مر گئے، سہاگنوں کے سہاگ اجڑ گئے، ماؤں کی گود اجڑ گئی، بچے یتیم ہو گئے، لوگ بے اولاد ہو گئے، مال متاع، مویشی انسان بہہ گئے، خاندان اجڑ گئے، شہر شہر، نگر نگر، قریہ قریہ پانی زندگیاں نگلنے لگا۔ گوجرانوالہ کا ہمارا ایک عزیز اور دوست لیاقت عرف لیاقو پہلوان جھولیاں والا محمد علی صاحب کو پا جی کہتا تھا، محمد علی صاحب سیلاب کے نوحے ابھی سنا رہے تھے کہ لیاقو پہلون (مرحوم) کی طبیعت میں فشار آ گیا اور محمد علی صاحب کی بات کاٹ کر کہنے لگا اور پا جی پنڈاں دے پنڈ رڑ گئے نیں (بھا جی گاؤں کے گاؤں، شہروں کے شہر بہہ گئے ہیں)۔ وہ پرانی بات ہے یہ سیلاب تو حقیقتاً خوفناک اور اس وقت آیا ہے جب مہنگائی، بے روزگاری، بیماری، غریبی اپنے عروج پر ہے۔ سیاست دانوں میں بلاول بھٹو، میاں شہباز شریف اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اس آفت میں لوگوں کے درمیان ہیں اور میڈیا کے کچھ فنکار ان کے علاقوں میں جا کر یعنی جہاں جہاں گئے ہیں وہاں پر جو کونے رہ گئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشاندہی کر رہے ہیں۔ ان کا ہمیشہ ایک ہی ایجنڈہ ہوا کرتا ہے الخدمت فاؤنڈیشن، جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی چاروں صوبوں میں لوگوں میں خیمے، خوراک، پوشاک، دوائیاں اور پیسے غرض اس آفت میں بھرپور کوشش کے ساتھ لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہیں۔ سیاسی خاندان بیانات دے رہے ہیں کہ 
سیاست کو بریک دے کر پہلے لوگوں کی مدد کریں، سیلاب زدگان کا پرسان حال بنیں مگر ایک سیاسی جماعت، اس کے اتحادی اور ان کا لیڈر جو بظاہر غیر سیاسی ہے 24 گھنٹوں میں 48 گھنٹے سیاست کر رہا ہے۔ اقتدار کے بغیر عمران نیازی کی حالت غیر ہوئے جا رہی ہے۔ ان کے جلسے، باتیں، بیانات اور اعلانات سن کر یقین نہیں آتا کہ یہ ٹولہ اسی ملک میں بس رہا ہے جس کو سیلاب بہا لے گیا۔ سیلاب کا شکار 95 فیصد لوگ وہ ہوئے جو زندگی سے مار کھائے ہوئے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ جہاں موت، بربادی اور تباہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے، نیازی صاحب سیلاب کی تعریفیں بیان کر رہے ہیں، کلمہ کے نئے مفہوم، اللہ کے پیغمبروں کی تعداد ہزاروں میں بڑھا رہے ہیں۔ وطن عزیز کی آبادی کے اعداد و شمار مضحکہ خیزی پیدا کر رہے ہیں۔ جس سیلاب کی تفصیل محمد علی صاحب بتا رہے تھے تب سوشل میڈیا نہیں تھا، تب ذرائع کی یہ رفتار نہیں تھی جس کی وجہ سے محمد علی صاحب کو معظم بھائی کے شوروم پر دکھی دل کے ساتھ تفصیلات بتانا پڑ گئیں۔ لیاقت پہلوان سن نہیں سکا، برداشت نہ کر سکا اور بات کاٹ دی۔ یقینا اگر وہ لوگ یا آج کے حساس اور انسانیت سے بہرہ ور لوگ سوشل میڈیا پر جو خبریں اور ویڈیوز آ رہی ہیں دیکھ کر شاید جینا بھول جائیں۔ مگر عمران خان ہے کہ چاروں صوبوں میں حکومت ہے، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، بلوچستان اور پنجاب مگر حرام ہے کہ انہوں نے ڈرامے کے علاوہ کچھ کیا ہو۔ ٹیلی تھون پر ایک پلانٹڈ سوال کرا لیا کہ کیا آپ پرائم منسٹر سے بات کرنا چاہتے ہیں؟ فون کرنے والا کہتا ہے کہ نہیں میں پرائم منسٹر نہیں کرائم منسٹر سے بات کرنا چاہتا ہوں تو عمران نیازی کہتے ہیں وہ یہاں نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں یہ سیاست دانوں کے نام بگاڑ کر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ 72 سالہ لڑکا ہے۔ جلسہ گاہوں میں اس کی حالت قابل رحم ہے، اپنی کرسی پر پی ایم لکھواتا ہے، کیا یہ ذہنی مریض نہیں؟ اقتدار سے جدائی نے حالت ایسے کر دی، ایک فلم میں رنگیلا اپنی محبوبہ سے کہتا ہے ”ہم تمہاری جدائی میں بندے سے بینگن ہو گئے ہیں، تمہیں کچھ خیال نہیں“۔ منور ظریف اس کو کہتا ہے ”تیرا منہ وڈی بطخ ونگر ہو گیا اے“ (عشق اور جدائی سے تمہارا منہ بڑی بطخ جیسا ہو گیا ہے۔) وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کو اقتدار کبھی فوراً دوبارہ نہیں ملا جو اقتدار سے باہر ہو۔ نیازی صاحب کے پاس تو مانگے تانگے کے اراکین تھے۔ یہ جو 22 سالہ جدوجہد کہتے ہیں دراصل بندوبست تھا جو ضیا کی گود سے حمید گل کی گود اور اس کے بعد پاشا صاحب، ظہیر اسلام سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ سیلاب الگ اور عمران نیازی کی ہوس اقتدار کا عذاب الگ ہے، شوکت ترین جس کو مخالفین نے غدار قرار دیا پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ سے مل کر خط والی سازش اگر حب الوطنی کا شائبہ بھی ہوتا تو زمین پھٹ جاتی اور یہ اس میں پناہ تلاش کرتے مگر ڈھٹائی کہ اللہ پناہ، یہی شوکت ترین صدر زرداری کا بھی وزیر خزانہ تھا مگر بات تو پیچھے والوں کی ہے۔ عمران نیازی کو دنیا میں صرف اقتدار عزیر ہے۔ یہ جو سوشل میڈیا اور اس کے اقتدار کی آمد کی خبر دیتے ہیں وہ ٹی وی پر جو Paid Content (پیسے دے کر چلنے والا اشتہار) سے زیادہ کچھ نہیں۔ جتنی مرضی ملاقاتیں کر لیں اب ان کا آنگن اقتدار کا سورج نہ دیکھ پائے گا۔ یہ بددعائے لوگ ہیں، انہوں نے زندگی کے ہاتھوں تھکے لوگوں کا مذاق اڑایا ہے۔ عمران نیازی کی حالت اب ایسے جیسے کسی کے ہاں  ناگہانی ہو جائے تو وہ ہاتھوں کو کاٹتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ یا اللہ کاش یہ خواب ہو۔ عمران نیازی اقتدار کا جانا خواب سمجھتے ہوئے اور آئندہ اپنے اقتدار کے خواب دیکھ رہا ہے۔ خوابوں پر پابندی نہیں۔ سیلاب، عذاب اور خواب اکٹھے حملہ آور ہیں وہ پانچ ارب والا ڈرامہ میرا خیال 5 عرب آئیں گے۔ سیاست دانوں تمہارے ووٹر، بیوروکریٹو تمہارے در کے سوالی، مائی لارڈ آپ کی عدل کی زنجیر کھینچنے والے سیلاب میں بہہ گئے۔ موسمی تبدیلیاں ان کی زندگیاں تبدیل کر گئیں، انتقال ہو گئے۔ اگر وہی نہ رہے جو تمہیں ووٹ دیتے ہیں، جو تمہارے دفاتر میں درخواستیں دیتے ہیں جو آپ سے انصاف کی امید لگا کر کچہریوں کی رونق ہیں، جلسوں کی رونق ہیں تو محکوموں اور مظلوموں کے بغیر تم پاگل ہو جاؤ گے۔ تاریخ تمہیں عبرت بنا دے گی، شرم کے ساتھ رعایا پر رحم کرو۔

مصنف کے بارے میں