حالیہ دہشتگردی کی37 سال پرانی منصوبہ بندی

حالیہ دہشتگردی کی37 سال پرانی منصوبہ بندی

وطن عزیر میں جب بھی دہشت گردی کی لہر آتی ہے تو سوشل میڈیا پر خود ساختہ دانشور اور کچھ کالم نگار ضیاءالحق کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں پھر ضیاءکے حامی پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی امریکی جنگ میں شمولیت کو نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ آپ ہر دو ر کی اچھی بُری باتوں کا تجزیہ تو کر سکتے ہیں لیکن مکمل طور پر دیوار سے لگا نا درست نہیں ہو گا،جیسا کہ اس میں کوئی شک نہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ہونے والی جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ امریکا اور روس براہ راست ٹکرانے کی بجائے دنیا کے مختلف خطوں میں میدان جنگ سجاتے اس دور کو بین الااقوامی دانشور سرد جنگ کا دور کہتے ہیں،ویتنام کی جنگ،کیوبا بحران،کوریا جنگ،عرب اسرائیل ٹکراو،ایران عراق آٹھ سال جنگ،گلف وار ون اور ٹو،افغانستان پرروسی اور امریکی حملہ،دنیا پر سرمایہ درانہ نظام کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ساری جنگیں لڑی جاتی رہیں،امریکا نے دنیا بھر میں آٹھ سو فوجی اڈے قائم کئے،امریکی معیشیت کو ملٹری اقتصادیات کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

امریکا کسی بھی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے وہاں ایسے حالات بھی خود پیدا کرتا ہے اس مقصد کی خاطر مختلف کہانیاں پھیلائی جاتیں ہیں جن کو عرف عام میں تھیوریز کہا جاتا ہے۔

امریکی ریسرچ سکالرز اور یونی ورسٹیاں ان پر تحقیقاتی مقالے شائع کرتی ہیں ،یورپی بھی ان تھیوریز پر کام کرتے ہیں اور دنیا کے باقی ماندہ تحقیق کار ان کتابوں کی مدد سے اپنی تحقیق مکمل کرتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر مرضی کی حکومتیں قائم کرنا اگر ضرورت ہو تو بدترین آمریت بھی جائز ہے۔اس کی ایک چھوٹی سی مثال ممبئی حملے ہیں جن کو حافظ سعید سے منسوب کیا جاتا ہے۔

 پاکستانی عدالتوں نے عدم ثبوت کی بنیاد پر حافظ سعید کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا لیکن بین الاقوامی مقالوں میں یہ حملے حافظ سعید نے کروائے اور بلاآخر پھر حکومت پاکستان نے حافظ سعید کو نظر بند کر دیا۔

ایک اور بات پر غور کرتے ہیں۔ پانچ جولائی 1977کو جنرل ضیاءالحق بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسر اقتدار آ جاتے ہیں اور ٹھیک دوسال بعد دسمبر 1979کو روس افغانستان پر حملہ کر دیتا ہے۔ اسطرح جنرل پرویز مشرف نے 22اکتوبر 1999کو نواز شریف حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کیا اورپھر2001میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا یاد رہے ضیا ءالحق اور جنرل پرویز مشرف کو سنیارٹی کے لحاظ سے ترقی نہیں دی گئی تھی ، ہو سکتا ہے  دونوں اہم جنگوں کے لیے مطلوبہ تیاری اس بنیاد پر کی گئی ہو۔
کہا جاتا ہے جنرل ضیاءایک اسلام پسند شخصیت تھے انہی کے دور میں افغان جنگ کا آغاز ہوا، روسیوں نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا جس کا کوئی ایک جواب نہیں ہو سکتا کیونکہ افغانستان میں روس نواز حکومت قائم تھی۔بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں جس کے لیے روس کو وہاں باقاعدہ فوج بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ افغانستان سمندری حدود سے محروم ملک ہے اور روس کا سمند ربھی تجارتی سرگرمیوں کے موافق نہیں تھا تجزیہ نگاروں کے مطابق روس ایک نہ ایک دن بلوچستان کے راستے اپنی تجارتی سرگرمیوں کو یقینی بناتا ،

آج کا سی پیک اُس وقت روس کی ضرورت تھا،روس افغانستان میں پوری طاقت سے موجود ہوتا تو کیا پاکستان کا مغربی حصہ محفوط رہ سکتا تھا،سقوط ڈھاکہ میں روس نے مکمل طور پر بھارت کا ساتھ دیا تھا۔
دوسری بات بھارت روسی کیمپ کا حصہ تھا اس لیے بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش ضرور کرتا جس کا ایک واضح ثبوت1984میں بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کی پاکستان پر حملہ کرنے کا ارادہ تھا(جس کو روکنے کے لیے ضیاءالحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا استعمال کیا تھا) باقی احوال بھارتی صحافی بہرام مشرا نے ضیاءاور راجیو کی دہلی ائیرپورٹ پر ہونے والی ملاقات کا حال بیان کیا تھا۔اسی دور میں امریکا میں نصاب کی کتابوں میں جہاد ی سرگرمیوں کے حق میں مضامین شائع کئے جاتے، صدر ریگن افغان جہادیوں کو سٹیٹ گیسٹ کے طور پر وائٹ ہاوس مدعو کرتے اور انکی مداح سرائی کرتے،ضیا الحق کی افغان جہاد میں شمولیت کے بعداسلامی دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی اقوام متحدہ کے35اجلاس میں ضیاءساری اسلامی دنیا کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہیں، اس دور میں جنرل ضیاءکی عوامی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے ضیاءجہاد اور اسلامی نظام کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ بقول ضیاءالحق اُنھوں نے مظلوم افغانوں کی مدد کا فیصلہ کر لیا اور باقی یہ بات بھی ٹھیک ہے یہ فیصلہ بھی امریکی ایماءپر کیا گیا تھا۔

اس جنگ میں پاکستان نے شامل ہونا تھا اس سے انکار کرنا ممکن نہیں تھا اور اس کام کے لیے جنرل ضیاءامریکیوں کے لیے بہترین آدمی تھے،ضیاءنے اس جنگ  میں  کچھ مثبت اور کچھ منفی اقدامات کئے جس میں پہلا پاکستانی ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرناابھی چند دن پہلے امریکیوں کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جنرل ضیاءنے ریگن انتطامیہ کو باقاعدہ خط لکھ کر یقین کروایا تھاکہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا  لیکن خفیہ طور پر 1984میں پاکستان ایٹم بم کا کولڈ ٹیسٹ کر چکا تھا امریکی بھی افغان جہاد کی وجہ سے خاموش رہے۔

دوسرا افغانستان میں برس پیکار قوتوں تک امریکیوں کو براہ راست رسائی نا ہونے دینا شامل تھا۔کشمیر کی تحریک آزادی کو اس دور میں مسلح ہونے کا موقع ملا ۔جنرل ضیاءافغانستان میں پاکستان کی مدد سے حکومت بنانا چاہتے تھے اور یہاں تک کہ روسی شکست کے بعد ضیاءوسطی ایشا کی آزاد ریاستوں تک مناسب رسائی بھی حاصل کرنا چاہتے تھے،جنرل ضیاءاور آرمی قیادت کی اچانک موت سے خود افغانستان میں قیادت کا بحران پیدا ہوا ۔جس وقت افغان جنگ شروع ہوئی اس وقت پاکستانی حکومت کا انتظامی ڈھانچہ خاصہ کمزور تھا،

عام پاکستانیوں کو افغان جہاد میں جھونک دیا گیا اسکے علاوہ عرب ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ افغان جہاد میں شرکت کے لیئے آئے

افغان مہاجرین کے ذریعے ہیروین کلچر اور کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا،مذہبی منافرقت کو فروغ حاصل ہوا، پاکستانی معاشرے میں موجود ایک گناہ کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی تو ہزاروں گناہوں نے جنم لے لیا اور وجہ تھی اُن لوگوں کے لیے متبادل روزگار کا بندوبست نہ کیا گیا۔افغان مہاجرین پورے پاکستان میں پھیل گئے ۔

باقی اگلی قسط میں

مصنف کے بارے میں

عبدالرئوف بلاگر اور کالم نگار ہیں