شذراتِ حکمت

شذراتِ حکمت

اقبال انٹرنیشل انسٹی ٹیوٹ فارریسرچ اینڈ ڈائیلاگ نے حال ہی میں قرونِ وسطیٰ کی لوک دانش پر مشتمل ایک کتاب ’’شذرات ِ حکمت ‘‘ کے عنوان سے شائع کی ہے۔ کتاب جس قدر باطنی حُسن سے مالا مال ہے، اسی طرح ظاہری طور پر بھی نفاست کا  بہترین نمونہ ہے۔ بنیادی طور پر کتاب مجموعہ ہے انسانی تجربات و واقعات اور اعلیٰ اخلاقی نتائج سے برآمد ہونے والے حکمت و نصیحت بھرے اقوال کا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تجربات اورمشاہدات کا تعلق زرعی عہد سے ہے۔  غلامی کا دور جب جمود کا شکار ہوا تو اس میں سے زرعی عہد نے جنم لیا اور جب زرعی دورکی پیداواری صلاحیت ایک حد پر آکر رک گئی تو صنعتی دور کا آغاز ہوا جس میں پیدا ہونے والے محنت کے استحصال کے خلاف مارکس کی فکر کی  روشنی میں جدو جہد شروع ہوئی، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب سب سے پہلے فارسی زبان میں ’’ سخنانِ محمد ﷺ ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی جس میں عربی روایات کا فارسی ترجمہ شامل تھا۔ آئی آرڈی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر ممتاز مرحوم نے اسے اردو اور انگریزی ترجمے کے اضافے کے ساتھ شائع کرنے کا پروگرام بنایا  اور ڈاکٹر محمد الغزالی نے اسے اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کر بھی لیا تھا ، مگر شائع نہ ہوسکا ۔آئی آر ڈی کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر حسن الامین نے اس مسودے کو عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر عمدہ دسترس رکھنے والے ہمارے نوجوان اور قابل دوست محمد وقاص خان کے سپرد کیا  جنھوں نے کمالِ محنت سے اسے مرتب کیا۔  
محمد وقاص خان کے مطابق کتاب سخنانِ محمد ﷺ ، کے عنوان سے محسوس یہ ہوتا تھا کہ یہ احادیث نبوی ﷺ کا مجموعہ ہے۔مگر جب انہوں نے اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ مستند احادیث نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ کسی بھی روایت کے لیے حوالہ بھی موجود نہیں تھا۔ جس کے لیے طے یہ کیا گیا کہ تمام روایات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے اور احادیث کی تخریج بھی کردی جائے۔کتاب میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ حدیث کے اصولوں اور درایت کے تفصیلی قواعد کے مدِ نظر رکھنے کی بجائے یہ کوشش کی گئی ہے کہ کتاب میں زیادہ کانٹ چھانٹ نہ ہو اور نہ ہی غیر حدیث کو حدیث کے طور پر پیش کیا جائے۔ بے شمار اقوال تلاش کے باوجود حدیث کی ان کتابوں میں نہیں مل سکے، جس میں صحت و ضعف کی تفریق  کے بغیر یک جا کرد یا گیا تھا۔ لہذا  اس صورتحال میں کتاب کو بجائے مجموعہ احادیث کی بجائے ( جیسا کہ سخنان محمد ﷺ کو باور کرایا گیا ہے) عہد وسطی کی لوک دانش سے چنیدہ ، بامعنی اور سبق آموز اقوال کو ’’شذراتِ حکمت‘‘ کے عنوان سے شائع کیا جائے۔  
راقم نے بھی ایسے ہی بے شمار اقوال احادیث کے طور پر سنے جو مفہوم اور معنی کے اعتبار سے تو حکمت سے پُر تھے، لیکن احادیث کی کتاب میں موجود نہیں تھے۔ایک دوست نے ایک واقعہ عہد نبوی ﷺ کے حوالے سے بتایاکہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کی محفل میں تشریف فرما تھے، تو ایک شخص کا گذر ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے شر سے بچو، کچھ دیر بعد وہ شخص اسی محفل میں شریک ہوگیا تو آپ ﷺ نے اس کا احترام کیا ۔ جب وہ رخصت ہوا تو صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ  ﷺ آپ نے تو فرمایا تھا کہ اس کے شر سے بچو ، لیکن آپ نے تو اس کا خاص اکرام فرمایا، تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اس کے شر سے بچنے کا یہ ہی طریقہ ہے۔ دیوان سنگھ مفتون ایک نامور صحافی تھے، ایک بار کراچی میں میرے والد مرحوم محمد اختر مسلم ؔ کے ساتھ بس میںشریک سفر تھے۔ والد نے اپنی آٹو گراف بک ان کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس پر لکھا کہ ’’ ظلم سہنا گویا ظلم کی تبلیغ کرنا ہے‘‘۔ طالب علم نے جب اہلِ علم کے سامنے سوال رکھا کہ کیا یہ حدیث مبارکہ ہے تو انہوں نے رہنمائی فرمائی کہ اسی مفہوم پر حدیث موجود ہے۔کتاب میں اس کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ایسے اقوال کی نسبت رسالت ماب ﷺ سے جوڑی ہی نہ جائے جن کا استناد بہت زیادہ قوی نہ ہو اور ان اقوال کو مسلم تہذیب و تمدن کا ترجمان ادبی کلام سمجھ کر استفادہ کیا جائے۔ کتاب سے چند حدیث مبارکہ ﷺ اور دیگر اقوال ِ حکمت ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں: 
منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ کہتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو اسے توڑتا ہے اور اگر اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے (صحیح البخاری رقم :۳۳)۔ 
بہادری کی آفت سرکشی، حسب و نسب کی آفت غرور اور سخاوت کی آفت احسان جتلانا ہے۔   
خوبصورتی کی مصیبت خود پسندی، بولنے کی مصیبت دروغ گوئی اور علم کی مصیبت بھلکڑ پن ہے۔ 
کیا تم سمجھتے ہو کہ پتھر ڈھونا مشقت  کا کام ہے؟مشقت تو اس کام میں ہے کہ کوئی شخص غصہ سے بھر جائے تب بھی اس پر قابو پالے۔ 
جس قوم کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرے تو ان میں دانشمندوں کی تعداد زیادہ کر دیتا ہے اور جاہلوں کی تعداد کم، چنانچہ ان میں جب کوئی دانشمند شخص بات کرے تو اسے سپورٹ ملتی ہے اور اگر کئی جاہل بولے ہے تو اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔اور جب کسی قوم کے ساتھ برائی کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ ان میں جاہلوںکی تعداد بڑھا دیتا ہے اور دانشمندوں کی تعداد کم کردیتا ہے، چنانچہ جو نہی کوئی جاہل شخص بات کرتا ہے اس کو طرفدار مل جاتے ہیں اور جب اہل دانش بات کرے تو اسے چپ کروادیا جاتا ہے۔ 
مہربانی عقل مندی کا آدھا حصہ ہے۔ 
لوگوں میں سب سے کم لذت حاسد کے نصیب میں ہوتی ہے۔ 
لوگوں میں سب سے کم راحت بخیل کو ہوتی ہے۔ 
کفایت شعاری نصف معیشت ہے۔ (جزء البغوی، رقم 13) 
حق بات کو مان لو چاہے وہ کسی چھوٹے کی زبان سے نکلے یا بڑے کی، چاہے وہ کوئی دور کا ناپسندیدہ شخص ہی کیوں نہ ہو، اور غلط بات کو رد کردو چاہے اس کو تم تک پہنچانے والا چھوٹا ہو یا بڑا، چاہے وہ تمھارا کوئی قریبی اور پسندیدہ شخص ہی کیوں نہ ہو۔ 
بہترین صدقہ آپس کے تعلقات کو جوڑنا ہے۔ 
بہترین جہاد اس کا ہے جو صبح جاگے تو دل میں کسی پر ظلم کا خیال نہ لائے۔ 
اللہ تعالیٰ مصالحت کی خاطر غلط بیانی کو پسند کرتا ہے اور فساد پھیلانے کی غرض سے بولے جانے والے سچ کو بھی ناپسند کرتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی حکمت سے یقین اور رضا میں راحت اور خوشی رکھ دی ہے اور غم اور پریشانی کو شک اور غصہ کے ساتھ ملا رکھا ہے۔ 
زنا کاری غربت لاتی ہے 
اقول قولی ھذا استغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات۔

مصنف کے بارے میں